Maktaba Wahhabi

606 - 625
’’فجر کی سنتوں کو دوپہر یعنی وقتِ زوال تک قضا کیا جاسکتا ہے،پھر اس کے بعد نہیں۔‘‘ امام ابراہیم نخعی،سعید بن جبیر اور حسن بصری رحمہم اللہ کا کہنا ہے: ’’جب سورج طلوع ہو جائے تو پھر کوئی وتر نہیں۔‘‘ بعض دیگر اہلِ علم کا کہنا ہے: ’’جس نے فجر کی نماز پڑھ لی،اب اس پر کوئی وتر نہیں ہے۔جب کہ پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے،جس کی وجہ ہم نے ذکر کر دی ہے۔‘‘ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ آدمی کے لیے کچھ ایسے نوافل ہوں،جس کی وہ پابندی کرتا ہو،جو اگر کبھی فوت ہو جائیں تو انھیں قضا کر لے۔‘‘[1] آگے چل کر امام ابن قدامہ رحمہ اللہ فرما تے ہیں کہ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’وتر فرض کے درجے کی نماز تو نہیں،لہٰذا اگر کوئی شخص صرف فرض نماز ہی پڑھ لے تو جائز ہے اور وتر و سننِ فجر سنتِ موکدہ ہیں،اگر کوئی چاہے تو وتر کی قضا کرلے اور نہ چاہے تو نہ کرے اور پھر فجر کی سنتوں اور وتر میں موازنہ کرتے ہوئے زیادہ بہتر اس بات کو قرار دیا گیا ہے کہ وتر فجر کی سنتوں سے زیادہ تاکید والے ہیں۔‘‘[2] سنتوں کی قضا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے بھی ایک سوال کیا گیا تھا کہ ایک آدمی کی ایک سے زیادہ نمازیں قضا ہوگئی ہیں تو کیا اب وہ موکدہ سنتوں سمیت انھیں پڑھے یا ان کی صرف فرض رکعتیں پڑھے گا اور کیا شب و روز کے تمام اوقات میں قضا نمازوں کو پڑھ سکتا ہے؟ اس پر موصوف نے جواب دیا تھا: ’’قضا نمازیں زیادہ ہوں تو سنتوں یا نوافل میں مشغول ہونے سے بہتر یہ ہے کہ جلد از جلد قضا نمازوں کے فرائض پڑھ لے اور اگر قضا نمازیں قلیل ہوں تو انھیں سنتوں سمیت پڑھنا اچھا ہے،کیوں کہ جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم غزوۂ حنین
Flag Counter