Maktaba Wahhabi

75 - 276
مشرکین نے اس دعوت کی مخالفت کی،کیونکہ یہ دعوت ان کے بت پرستی والے عقیدے اور آباء و اجداد کی اندھی تقلید کے خلاف تھی۔ انھوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر (العیاذ باللہ) جادوگر اور دیوانہ ہونے کا الزام لگایا،حالانکہ اس سے پہلے وہ آپ کو صادق و امین کے نام سے پکارتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان پر عمل کرتے ہوئے اپنی قوم کی اس تکلیف پر صبر کیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا﴾ ’’آپ اپنے رب کے فیصلے کا انتظار کرتے ہوئے صبر کریں اور ان میں سے کسی گناہ گار یا ناشکرے کی بات نہ مانیں۔‘‘[1] آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تیرہ سال تک توحید کی دعوت دیتے رہے اور اپنے پیروکاروں کے ساتھ تکالیف برداشت کرتے رہے،آخرکار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ساتھیوں سمیت مدینہ کی طرف ہجرت کی،تاکہ عدل و انصاف اور محبت و مساوات پر مبنی نیا اسلامی معاشرہ قائم کیا جائے،اللہ تعالیٰ نے بہت سے معجزات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد فرمائی۔ ان میں سب سے اہم معجزہ قرآن کریم ہے جو توحید،علم و حکمت،جہاد اور عمدہ اخلاق کا درس دیتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت دینے کے لیے دنیا کے بادشاہوں کو خطوط لکھے۔ روم کے بادشاہ قیصر کو اس انداز سے مخاطب کیا: ((اسْلِمْ تَسْلَمْ،وأسْلِمْ يؤتكَ اللّٰهُ أجْرَكَ مَرتينِ)) ’’مسلمان ہوجاؤ محفوظ رہوگے،اللہ تعالیٰ تمھیں دوہرا اجر دے گا۔‘‘ ﴿ قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللّٰهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللّٰهِ﴾
Flag Counter