Maktaba Wahhabi

102 - 236
الگ الگ لفظ بن جاتے ہیں،جن کا الگ الگ ہی مفہوم بھی ہے،جیسا کہ پہلے وہ الفاظ لکھے جاچکے ہیں۔ اس لفظ کے ضبط و اعراب کے سلسلے میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اور علامہ عینی نے عمدۃ القاری میں لکھا ہے: ’’یہ لفظ تمام روایات میں تا کے زبر اور عین کی پیش کے ساتھ’’تَعُدْ‘‘ہے جو عَوْد سے بنا ہے،اس طرح اس حدیث کا معنی صرف یہ بنتا ہے کہ دوبارہ ایسا مت کر۔‘‘[1] یعنی نہ تیز دوڑ کر نماز کی طرف آؤ،نہ صف سے باہر تکبیرِ تحریمہ کہو،نہ صف سے باہر رکوع کر،نہ اس طرح صف میں داخل ہو اور نہ جماعت کی طرف تاخیر سے آؤ۔ علامہ جزری نے بھی کہا ہے کہ’’لا تعد‘‘میں’’تعد‘‘تا کے زبر اور عین کی پیش کے ساتھ اور دال کے سکون کے ساتھ ہے،جس کا اصل مادہ عود ہے،یعنی ایسا فعل(رکوع میں چلنا) آیندہ نہ کرنا اور یہ بھی احتمال ہے کہ اکیلے اقتدا کرنے سے منع فرمایا ہو اور یہ بھی امکان ہے کہ صف تک پہنچنے سے پہلے رکوع کرنے سے منع فرمایا ہو اور بظاہر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سب امور سے ہی منع فرمایا تھا۔[2] آگے امام جزری فرماتے ہیں کہ جس نے اس لفظ کو تا کی پیش اور عین کی زبر کے ساتھ’’لا تُعِدْ‘‘پڑھا ہے اور اسے اعادہ کرنے یا دہرانے سے مانا ہے،اس نے بہت بعید کی بات کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ہو کہ تم اپنی نماز مت دہراؤ اور اس سے بھی بعید تر بات اس کی ہے جس نے اسے عَدو سے تا کے زبر اور عین کی
Flag Counter