Maktaba Wahhabi

108 - 236
فاتحہ ہے،چنانچہ امام سیوطی وزرقانی رحمہما اللہ شرح موطا میں لکھتے ہیں: ’’علمائے کرام کا کہنا ہے کہ یہاں’’الصلاۃ‘‘یعنی نماز سے مراد سورت فاتحہ ہے(جیسا کہ الفاظِ حدیث سے پتا چلتا ہے) اور سورت فاتحہ کو’’نماز‘‘کے الفاظ سے اس لیے تعبیر کیا گیا ہے کہ اس کے سوا نماز صحیح نہیں ہوتی۔آگے اسے مثال دے کر سمجھا نے کے لیے لکھتے ہیں کہ جس طرح نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:((اَلْحَجُّ عَرَفَۃٌ)) [1]’’حج عرفات میں وقوف کا نام ہے۔‘‘ جس طرح عرفات میں وقوف کے بغیر حج نہیں ہوتا،اس طرح ہی نماز سورت فاتحہ کا نام اور اس کے بغیر بھی نماز نہیں ہوتی،اس حدیث میں عین سورت فاتحہ کے واجب ہونے کا ثبوت پایا جاتا ہے اور عاجز کے سوا ہر نمازی کے لیے سورت فاتحہ کا پڑھنا ہی متعین اور طے شدہ ہے۔امام مالک،شافعی،صحابہ و تابعین رحمہم اللہ اور بعد والے علما میں سے جمہور کا یہی مذہب ہے[2]۔ امام شوکانی رحمہ اللہ نے نیل الاوطارمیں لکھا ہے: ’’یہ حدیث نماز میں سورت فاتحہ کے فرض و واجب ہونے پر دلالت کرتی ہے اور جمہور اہلِ علم کا یہی مسلک ہے۔‘‘[3] امام ابن العربی مالکی رحمہ اللہ’’احکام القرآن‘‘میں لکھتے ہیں: ’’امام شافعی کے اصحاب کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مقتدی سورت فاتحہ ضرور پڑھے اور اگر نہیں پڑھے گا تو اس حدیث
Flag Counter