Maktaba Wahhabi

161 - 236
’’احادیث سے کئی سکتے ثابت ہیں۔‘‘ اس کے اگلے ہی صفحے پر لکھتے ہیں: ’’إِذَا رُوِیَتْ سَکْتَاتٌ مُتَعَدِّدَۃٌ غَیْرُ مُنْحَصِرَۃٍ فِيْ الْاِثْنَیْنِ بِرِوَایَاتٍ مُخْتَلِفَۃٍ،فَیَقْرَأٔ الْمَأْمُوْمُ فِيْ أَيِّ سَکْتَۃٍ‘‘[1] ’’نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کئی احادیث میں متعدد سکتات ثابت ہیں تو مقتدی جس سکتے میں چاہے سورت فاتحہ پڑھ سکتا ہے۔‘‘ 3۔ صرف سکتات کا اعتراف ہی نہیں،بلکہ فریقِ ثانی کے کتنے ہی مقتدر علما سکتات میں سورت فاتحہ پڑھنے کی اجازت دیتے ہیں اور اسے استماع و انصات کے منافی نہیں سمجھتے،چنانچہ علامہ عبد الحی لکھنوی کے اس سلسلے میں معروف فتوے کے علاوہ قاضی ثناء اللہ پانی پتی’’تفسیر مظہری‘‘میں لکھتے ہیں:(مقتدی کی قراء ت کے تعلق سے) اُم القرآن کا استثنا اس بات کا متقاضی ہے کہ احادیثِ قراء ت اور آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ دونوں پر عمل کرتے ہوئے سورت فاتحہ سکتات میں پڑھی جائے۔[2] 4۔ جہری قراء ت کے سکتات میں سورت فاتحہ پڑھ لینے کا اختیار شاہ ولی اللہ نے بھی دیا ہے،جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے۔[3] 5۔ مولانا رشید احمد گنگوہی کی کتاب’’سبیل الرشاد‘‘(۳۱۔۳۳) کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سکتات میں سورت فاتحہ پڑھا کرتے تھے اور اس طرح پڑھنا ان کے نزدیک باعثِ خلط و تشویش نہیں
Flag Counter