Maktaba Wahhabi

175 - 236
سکتات میں پڑھے۔‘‘ 2۔ یہی مفہوم حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی اس عبارت کا ہے جو بخاری شریف کی شرح فتح الباری میں ہے،جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’وَلَا دَلَالَۃَ فِیْہِ لِإِمْکَانِ الْجَمْعِ بَیْنَ الْأَمْرَیْنِ فَیُنْصِتُ فِیْمَا عَدَا الْفَاتِحَۃِ أَوْ یُنْصِتُ اِذَا قَرَأَ الْاِمَامُ وَ یَقْرَأُ إِذَا سَکَتَ‘‘[1] ’’اس میں بھی ممانعتِ فاتحہ کی کوئی دلیل نہیں،کیوں کہ انصات و قراء ت دونوں کو جمع کرنا ممکن ہے اور وہ یوں کہ مقتدی سورت فاتحہ کے سوا قراء ت میں خاموش رہے یا امام کی قراء ت کے وقت خاموش رہے اور جب امام خاموش ہو تو اس سکتے میں مقتدی پڑھ لے۔‘‘ 3۔ یاد رہے کہ یہی جواب امام ابن حزم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب’’المحلّٰی‘‘میں بھی دیا ہے۔[2] 4۔ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ نے’’التعلیق المغني علی سنن الدارقطني‘‘میں لکھا ہے کہ((وَ اِذَا قَرَأَ فَاَنْصِتُوْا)) سے سورت فاتحہ کے علاوہ قراء ت مراد ہے اور اس حدیث میں ترکِ فاتحہ کا ذکر نہیں ہے۔[3] 5۔ اور تو اور مانعینِ قراء ت کے فریق سے بھی بعض علما نے یہی بات کہی ہے،چنانچہ شیخ سلام اللہ حنفی نے’’محلّٰی شرح موطأ‘‘میں لکھا ہے: ’’وَقَدْ أُجِیْبَ عَنْہُ بِحَمْلِ الْاِنْصَاتِ فِیْمَا عَدَا الْفَاتِحَۃِ‘[4]
Flag Counter