وجہ ہے کہ’’الاحسان في تقریب صحیح ابن حبان‘‘کے مُرَتِّبْ و مُبَوِّبْ امیر علاء الدین فاسی حنفی نے اس حدیث پر یوں تبویب کی ہے:
’’ذِکْرُ الْبَیَانِ بِأَنَّ الْقَوْمَ کَانُوْا یَقْرَأُوْنَ خَلْفَ النَّبِيِّ صلی اللّٰه علیہ وسلم مَعَ الْصَّوْتِ حَیْثُ قَالَ لَہُمْ ہَذَا الْقَوْلَ،لَا أَنَّ رَجُلاً وَاحِداً کَانَ ہُوَ الَّذِيْ یَقْرَأُ وَحْدَہٗ‘‘[1]
’’اس بات کا بیان کہ پوری قومِ صحابہ رضی اللہ عنہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بآوازِ بلند قراء ت کیا کرتے تھے،تبھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا،ایسا نہیں کہ ایک ہی آدمی پڑھتا تھا۔‘‘
مسند احمد اور معجم طبرانی کبیر و اوسط میں حضرت عبد اللہ بن بحینہ رضی اللہ عنہ سے بھی ایک حدیث مروی ہے،جس میں ہے:
((ہَلْ قَرَأَ أَحَدٌ مِنْکُمْ مَعِيْ آنِفاً؟ قَالُوْا:نَعَمْ،قَالَ:إِنِّیْ أَقُوْلُ:مَا لِيْ اُنَازَعُ الْقُرْآنَ،فَانْتَہَی الْنَّاسُ عَنِ القراءة مَعَہٗ حِیْنَ قَالَ ذَلِکَ))[2]
’’کیا تم میں سے کسی نے میرے پیچھے قراء ت کی ہے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی:ہاں!آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں بھی کہوں کہ مجھے قراء ت کرنے میں الجھن کیوں ہو رہی ہے؟‘‘جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کہا تو لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراء ت کرنا ترک کر دیا۔‘‘
اس حدیث سے بھی پتا چلتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قراء ت کرنے والا ایک
|