’’وَذَلِکَ أَنَّ بْعَضَ الْمَأْمُوْمِیْنَ جَھَرَ خَلْفَہٗ فَنَازَعَہٗ قِرَائَتَہٗ فَشَغَّلَہٗ،فَنَہَیٰ عَنِ الْجَہْرِ بِ القراءة فِيْ الصَّلَاۃِ خَلْفَہٗ‘‘[1]
’’بعض مقتدیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جہراً قراء ت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قراء ت میں الجھن پیدا کی،لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیچھے جہری قراء ت سے منع فرمایا۔‘‘
4۔ امام ابن حبان نے اپنی صحیح میں امام زہری رحمہ اللہ کے قول: ’’فَانْتَہَی النَّاس‘‘کا یہی معنی لکھا ہے: ’’أَرَادَ بِہِ رَفْعَ الصَّوْتِ خَلْفَ الرَّسُوْلِ صلی اللّٰه علیہ وسلم‘‘[2]
’’اس سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بلند آواز سے قراء ت کرنا ہے۔‘‘
5۔ ’’غیث الغمام حاشیہ إمام الکلام‘‘میں مولانا عبد الحی نے((مَا لِيْ اُنَازَعُ الْقُرْآنَ)) کا معنی و مفہوم یوں لکھا ہے:
’’فَہُوَ إِنْ دَلَّ عَلَی النَّہْيِ فَاِنَّمَا یَدُلُّ عَلَی نَہْیِ القراءة الْمُفْضِیَۃِ إِلَی الْمُنَازَعَۃِ فِيْ الْجَہْرِیَّۃِ‘‘[3]
’’اس میں اگر کوئی دلیل ہے تو وہ اس بات کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری قراء ت سے منع کیا تھا،جو جہری نماز میں منازعت کا باعث ہوتی ہے۔‘‘
6۔ علامہ ابن عبد البر’’التمہید‘‘میں لکھتے ہیں:
’’وَلَا تَکُوْنُ الْمُنَازَعَۃُ إِلَّا فِیْمَا جَہَرَ الْمَأْمُوْمُ وَرَائَ الْإِمَامِ‘‘[4]
’’نماز میں منازعت صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے جب مقتدی امام
|