Maktaba Wahhabi

212 - 236
’’جس نے کوئی رکعت بھی ایسی پڑھی،جس میں قراء تِ فاتحہ نہ کی،اس کی وہ رکعت نہیں ہوئی،سوائے اس کے کہ وہ امام کے پیچھے ہو۔‘‘ اس اثر سے بھی دلیل لی جاتی ہے اور یہ ہے بھی سنداًصحیح۔ 1۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ ہی سے صحیح سند کے ساتھ ابن ماجہ،سنن کبریٰ اور’’کتاب القراءة‘‘بیہقی کے حوالے سے ایک اثر فریقِ اول کی تاکید میں اثرِ پنجم کے طور پر ذکر کیا جا چکا ہے،جیسے علامہ بوصیری،ابو الحسن سندھی اور علامہ عبد الحی لکھنوی جیسے کبار علمائے احناف نے صحیح قرار دیا ہے۔اس سے پتا چلتا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سری نمازوں میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے کے قائل تھے،لہٰذا اس اثر سے زیادہ سے زیادہ جہری نمازیں مراد لی جاسکتی ہیں،جن میں امام بلند آواز سے قراءت کر رہا ہو۔ 2۔ دوسری بات یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد صرف وہ رکعت ہو،جس میں مقتدی امام کو رکوع میں پاتا ہے،چنانچہ امام ابن خزیمہ نے امام احمد بن حنبل کے ہم عصر اور ایک بلند پایہ مجتہد امام اسحاق بن راہویہ رحمہم اللہ سے نقل کیا ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’یُحْتَمَلُ أَنْ یَّکُوْنَ الْمُرَادُ بِہٖ الَّتِيْ یُدْرِکُ الْمَأَمُوْمُ إِمَامَہٗ رَاکِعاً فَیُجْزِیُٔ عَنْہُ بِلَا قِرَائَۃٍ‘‘[1] ’’اس بات کا احتمال ہے کہ اس سے وہ رکعت مراد ہو،جسے مقتدی اس وقت پاتا ہے،جب کہ امام رکوع جا چکا ہو،اس صورت میں اس کی وہ رکعت بلا قراء ت ہو جائے گی۔‘‘
Flag Counter