Maktaba Wahhabi

214 - 236
’’لَا قِرَائَۃَ مَعَ الْإِمَامِ فِيْ شَیْئٍ‘‘[1] ’’امام کے ساتھ کسی چیز میں بھی قراء ت نہیں۔‘‘ یہ اثر سند کے اعتبار سے صحیح ہے،لیکن اس سے مراد سورت فاتحہ کے سوا کی قراء ت ہے یا پھر اسے ترکِ جہر پر محمول کرنا ضروری ہے،تاکہ اس اثر اور مرفوع احادیثِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم میں موافقت پیدا ہو جائے،جیسا کہ امام نووی نے شرح مسلم میں اور امام بیہقی نے’’کتاب القراءۃ‘‘میں کہا ہے،چنانچہ شرح مسلم میں امام نووی نے اس اثر کے دو جواب ذکر کیے ہیں،جن کا خلاصہ و ماحصل یہ ہے: 1۔ صحیح احادیث جیسے:((لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَأْ بِأُمِّ الْقُرْآنِ)) اور((اِذَا کُنْتُمْ خَلْفِيْ فَلَا تَقْرَأُوْا اِلَّا بِأُمِّ الْقُرْآنِ)) اور ایسی ہی دیگر ثابت شدہ احادیث،حضرت زید رضی اللہ عنہ اور کسی بھی دوسرے صحابی کے قول پر مقدم ہیں(حدیثِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور قولِ صحابی رضی اللہ عنہم میں جو زمین و آسمان کا فرق ہے وہ کسی سے بھی مخفی نہیں ہے)۔ 2۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا قول جہری نمازوں میں سورت فاتحہ کے بعد والی سورت پڑھنے کی ممانعت پر محمول ہو گا اور یہ تاویل بھی محض اختیاری نہیں،بلکہ سخت ضروری ہے،تاکہ صحیح احادیثِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اور قولِ ہذا میں مطابقت و موافقت پیدا ہو جائے۔[2] امام بیہقی نے’’کتاب القراءۃ‘‘میں اس اثر کو نقل کرکے لکھا ہے کہ ہمارے نزدیک اس کا مطلب یہ ہے کہ امام کے پیچھے جہراً قراء ت نہیں ہے اور صحابہ و تابعین
Flag Counter