Maktaba Wahhabi

219 - 236
علامہ لکھنوی نے آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا تذکرہ کرتے ہوئے امام الکلام میں لکھا ہے: ’’فَہَذِہٖ آثَارٌ شَہِدَتْ بِأَنَّ الْمَسْئَلَۃَ خِلَافِیَّۃٌ بَیْنَ الصَّحَابَۃِ وَ أَئِمَّۃِ الْأُمَّۃِ‘‘[1] ’’ان آثار سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ یہ مسئلہ قراء تِ فاتحہ خلف الامام صحابہ رضی اللہ عنہم اور ائمہ امت کے درمیان مختلف فیہ ہے۔‘‘ علامہ لکھنوی ہی نے’’التعلیق الممجد علیٰ موطا الإمام محمد‘‘میں لکھا ہے: ’’وَاَمَّا مَا ذَکَرَہٗ صَاحِبُ الْہِدَایَۃِ مِنْ إِجْمَاعِ الصَّحَابَۃِ عَلیٰ الْمَنْعِ،فَلَیْسَ بِصَحِیْحٍ،لِکَوْنِ الْمَسْئَلَۃِ مُخْتَلِفاً فِیْہَا بَیْنَ الصَّحَابَۃِ‘‘[2] ’’صاحبِ ہدایہ کا ترکِ قراء ت پر اجماع کا ذکر کرنا صحیح نہیں ہے،کیوں کہ یہ مسئلہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ما بین مختلف فیہ ہے۔‘‘ خود علمائے احناف کی ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ قراء تِ فاتحہ کے مسئلے میں مانعین کا اپنے حق میں اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا دعویٰ محض طفل تسلی ہے،جس کی دنیائے علم و تحقیق میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔علامہ عینی نے اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے اس موہوم دعوے کی تائید میں اس کی چار توجیہات پیش کی ہیں اور ان چاروں کی تردید خود انہی کے ہم مسلک عالم علامہ لکھنوی نے کردی ہے،جس کا تذکرہ تحقیق الکلام میں بھی آگیا ہے،لہٰذا اس(۲؍۲۲۴،۲۲۵) کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
Flag Counter