Maktaba Wahhabi

227 - 236
’’أَوَّلُ مَا أَحْدَثُوْا القراءة خَلْفَ الْإِمَامِ کَانُوْا لَا یَقْرَأُوْنَ‘‘ ’’سب سے پہلے لوگوں نے قرا ء ت خلف الامام کا مسئلہ نکالا،وہ امام کے پیچھے نہیں پڑھتے تھے۔‘‘ اس کی سند میں اعمش ہے جو ثقہ اور بہت بڑے محدث تھے،لیکن تدلیس کرتے تھے،جیسا کہ’’التقریب‘‘(ص:۲۱۰) اور’’التلخیص‘‘(۲؍۳؍۱۹) میں حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے،’’فتح المغیث‘‘(۱؍۸۸) میں علامہ عراقی نے،’’الکفایہ‘‘(ص:۴۷۲،۴۸۵) میں علامہ بغدادی نے،’’معرفہ علوم الحدیث‘‘(ص:۱۰۰) میں امام حاکم نے،اور شرح مسلم میں امام نووی نے انھیں مدلس اور ان کی معنعن روایت کو ناقابلِ قبول قرار فرما دیا ہے۔ 10۔ ان کا ایک اثر موطا امام محمد(ص:۹۸) میں بھی ہے،جس کے اطلاق پر خود علمائے احناف میں سے علامہ ظفر احمد عثمانی نے ماہنامہ’’فاران‘‘کے20 نومبر 1963ء کے شمارے میں نقد ونقض کیا ہے۔ الغرض ان تمام آثارِ تابعین رحمہم اللہ کے متعلق پوری اور علمی تفصیل درکار ہو تو’’تحقیق الکلام‘‘(۲؍۲۲۱،۲۲۲) اور’’توضیح الکلام‘‘(۲؍۷۵۱،۷۶۹) ملاحظہ کر لیں،مختصر یہ کہ ان آثار میں اتنی جان نہیں کہ احادیثِ صحیحہ اور صریحہ اور آثارِ صحابہ و تابعینِ صحیحہ و صریحہ کا مقابلہ کر سکیں،لہٰذا اس مسئلے یعنی’’قراء تِ فاتحہ خلف الامام‘‘کے سلسلے میں فریقِ اول کا پلہ ہی بھاری ہے کہ ان کے یہاں دلیل کی قوت ہے۔ 
Flag Counter