Maktaba Wahhabi

38 - 236
نماز میں کوئی چارہ ہی نہیں۔‘‘ان میں لکھا ہے کہ اُس چیز کے چھوڑ دینے سے بھی نماز کا دوبارہ پڑھنا فرض ہے،جسے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکن قرار دیا ہے،جیسا کہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ((لَا صَلَاۃَ اِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ)) [1] ’’سورت فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہے۔‘‘ پھر آگے چل کر(۲؍۹) لکھتے ہیں کہ نمازی اگر مقتدی ہے تو استماع و انصات واجب ہے کہ اگر اما م بلند آواز سے قراء ت کرے تو مقتدی قراء ت نہ کرے،مگر سکتات میں(یعنی امام کے ساتھ ساتھ تو نہ پڑھے،بلکہ جب وہ ایک آیت پڑھ کر خاموش ہو تو اس سکتہ یا خاموشی میں مقتدی بھی سورت فاتحہ کی وہ آیت پڑھ لے) اور اگر امام آہستہ سے(بلا آواز) قراء ت کرے تو مقتدی کو اختیار ہے کہ وہ اس انداز سے پڑھے کہ امام کی قراء ت میں خلل انداز نہ ہو اور آگے وہ اپنے لیے ان الفاظ میں لکھتے ہیں: ’’ہٰذَا أَوْلَیٰ الْأَقْوَالِ عِنْدِي‘‘[2] ’’میرے نزدیک یہ(مقتدی کا فاتحہ پڑھنا) سب سے بہتر قول ہے۔‘‘ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ کے ان الفاظ سے یہ بات بھی واضح ہوگئی کہ ان کے نزدیک بلند آواز سے قراء ت کی جانے والی نمازوں میں امام کے سکتات میں سورت فاتحہ کو پڑھ لینا استماع وانصات کے منافی نہیں ہے اور سورت فاتحہ پڑھنے سے امام کی قراء ت میں خلل واقع نہ ہوتا ہو تو مقتدی کے لیے سورت فاتحہ کا پڑھنا اولیٰ ہے۔ 14۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحب زادے مفتی و مفسرِ قرآن شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ
Flag Counter