Maktaba Wahhabi

61 - 236
اس آیت سے وجۂ استدلال یوں ہے کہ نماز میں مطلق قراء ت کی فرضیت پر تو علمائے احناف نے بھی اس آیت سے استدلال کیا ہے،اور ان کے نزدیک اس آیت کا مخاطب جس طرح منفرد ہے ویسے ہی امام و مقتدی بھی تو ہے،لہٰذا یہ آیت جس طرح منفرد سے قراء ت کا تقاضا کرتی ہے،ایسے ہی امام و مقتدی سے بھی۔اب رہا معاملہ یہ کہ اس آیت میں ﴿ مَا تَيَسَّرَ ﴾سے مراد کیا ہے؟ اس کے بارے میں علمائے احناف کے دو قول ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک قرآن کی کوئی ایک آیت اور امام ابو یوسف و محمد رحمہما اللہ کے نزدیک تین آیتیں ہیں،لیکن حقیقت یہ ہے کہ آیت کے الفاظ ﴿ مَا تَيَسَّرَ ﴾ کی تعیین ایک آیت یا تین آیتوں سے کرنا محض ایک دعویٰ ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے نہ قرآن و سنت سے اور نہ اجماعِ امت ہی سے،بلکہ اس کے برعکس قائلینِ وجوب ِ فاتحہ کا کہنا ہے کہ یہاں ﴿ مَا تَيَسَّرَ﴾ سے مراد سورت فاتحہ ہے،کیوں کہ وہی’’السبع المثاني‘‘یعنی نماز میں بار بار پڑھی جانے والی ہے،جیسا کہ پہلی آیت کے تحت بعض احادیث و آثار ذکر کیے گئے ہیں اور((لَا صَلَاۃَ إِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ)) والی حدیث کہ’’فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔‘‘متواتر حدیث ہے،جیسا کہ امام بخاری نے ’’جزء القراءة‘‘ (ص:۴) میں کہا ہے اور ایک جگہ یہاں تک لکھا ہے: ((وَأَہْلُ الصَّلَاۃِ مُجْتَمِعُوْنَ فِيْ بِلَادِ الَمُسْلِمِیْنَ فِيْ یَوْمِہِمْ وَ لَیْلَتِہِمْ عَلیٰ قِرَائَۃِ اُمِّ الْقُرْآنِ)) ’’پورے عالمِ اسلام کے تمام مسلمان اس بات پر متفق ہیں کہ نماز میں سورت فاتحہ پڑھنی چاہیے۔‘‘ علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے’’الإتقان‘‘(۱؍۱۲) میں لکھا ہے:
Flag Counter