Maktaba Wahhabi

65 - 236
زید رحمہ اللہ کا قول بتایا ہے جو اپنے والد زید بن اسلم رحمہ اللہ سے روایت بیان کرتے ہیں جو تابعینِ کرام میں سے ہیں اور’’خیر الکلام‘‘(ص:۴۹) میں تفسیر نیشاپوری کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ اس میں تصریح ہے کہ آہستگی سے پڑھنا انصات کے منافی نہیں۔اس بات کی تفصیل فریقِ ثانی کے دلائل کے ضمن میں ان شاء اللہ ذکر کی جائے گی۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی سری نمازوں میں اور جہری نمازوں میں بھی اس وقت جب مقتدی قراء ت کی آواز نہ سن رہا ہو تو امام کے پیچھے سورت فاتحہ پڑھنے پر اسی آیت سے استدلال کیا ہے۔تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ(۲۳؍۲۸۵) اور فتاویٰ مصریہ(۲؍۱۴۹) علامہ قرطبی نے اپنی تفسیر(۷؍۲۲۵) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کرتے ہوئے لکھا ہے: ((اَنَّہٗ یَعْنِيْ بِالذِّکْرِ:القراءة فِيْ الصَّلَاۃِ)) [1] ’’یہاں ذکر سے مراد نماز میں قراء ت کرنا ہے۔‘‘ صحیح سند کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سری و جہری تمام نمازوں میں امام کے پیچھے سورت فاتحہ کی قراء ت ثابت ہے،جس کی نص ہم آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے ضمن میں ذکر کریں گے۔باذن اللہ علامہ ابن حزم نے’’المحلّٰی‘‘(۳؍۲۳۹) میں اس ذکر کو نماز میں قراء ت کرنا ہی شمار کیا ہے اور ممکن ہے کہ کسی کے دل میں یہ خیال گزرے کہ شاید ذکر سے مراد’’ذکرِ قلبی‘‘ہو تو یہ خیال بھی درست نہیں،کیوں کہ امام نووی رحمہ اللہ نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب’’الأذکار‘‘میں لکھا ہے:
Flag Counter