Maktaba Wahhabi

43 - 215
ہے اور آپ کی فقہ کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے کیا سچ مچ جو حدیث میں ہے آپ چھوڑ دیں گے؟نہ مانیں گے؟اور جو فقہ میں ہے اسے تھام لیں گے؟اسی پر ایمان لائیں گے؟ خطا و نسایان کا مسئلہ: 2.’’عن ابن عباس ان رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم قال ان اللّٰه تجاوز عن امتی الخطاء والنسیان وما الستکرھوا علیہ ‘‘ ترجمہ:یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے میری امت کی غلطی اور خطا سے اور بھول چوک سے اور جو ان سے جبراً کراہاًکرایا جائے اس سے درگذر فرما کر معاف فرما دیا ہے۔(رواہ ابن ماجہ والبیہقی،مشکوۃ،ص۵۸۴،ج ۲) یہ حدیث ابن ماجہ اور بیہقی کی ہے اس کے الفاظ صاف ہیں کہ جو کام بھولے چوکے ہو جائے وہ معاف ہے اس پر پکڑ نہیں۔اسی اصول کے مطابق نماز میں جو غلطی سے یا بھولے سے بول چال لے اس کی نماز باطل نہیں ہو تی۔چنانچہ صحیح مسلم شریف کی حدیچ میں ہے کہ سیدنا معاویہ بن حکم رضی اللہ عنہ نے نماز میں کلام کیا لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ منقول نہیں کہ آپ نے انہیں اس نماز کے دہرانے کا حکم دیا ہو۔سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ چار رکعت والی نماز میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو پڑھا کر سلام پھیردیا۔پھر جب آپ کو اطلاع دی گئی اور یقین ہوا تو جو دو رکعت چھوٹ گیں تھیں انہیں ادا کر لیا اور دو سجدے سہو کے کر لئے یہ حدیث بخاری مسلم میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے او یہی روایت مسلم شریف میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔پس یہ حدیثیں صاف ہیں اس بارے میں کہ نماز
Flag Counter