Maktaba Wahhabi

58 - 215
ترجمہ:’’یعنی جب جمعہ کے دن امام خطبے کے لئے نکل آیا پھر نفل نہ پڑہے‘‘ حنفی بھائیو!حدیث آپ کے سامنے ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم موجود ہے کہ امام کے خطبے کی حالت میں جو آئے وہ دو رکعت ادا کر لے خود آپ نے ایسے شخص کو دو رکعت پڑہنے کا حکم دیا اور اپنے سامنے پڑہوائیں اور آپ کی فقہ کا مسئلہ بھی آپ کے سامنے ہے کہ یہ رکعتیں نہ پڑہے۔اب کہو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حکم برداری کرو گے یا اپنے مذہب کی؟تمہارا دل کس پر ایمان لانے کو چاہتا ہے؟اور کس سے منکر ہو نے کو؟اپنے لئے جو راہ چاہیں اختیار کر لیں۔ ایک وتر کا مسئلہ: (۱۵)’’عن ابن عمر قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم صلوۃ اللیل مثنٰی مثنٰی فاذا خشی احدکم الصبح صل رکعۃ واحد ۃ توتر لہ ما قد صلی‘‘ ترجمہ:’’یعنی رات کی نماز دو دو رکعت کر کے ہے جب صبح کے ہو جانے کا ڈر لگنے لگے تو ایک رکعت وتر پڑھ لے‘‘(متفق علیہ،مشکوۃ ۱۱۱،ج ۱،کتاب الصلوۃ باب الوتر) یہ حدیث بخاری مسلم جیسی حدیث کی صحیح تر کتاب میں ہے اپنے مطلب میں واضح ہے کہ وتر ایک رکعت ہے۔مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ وتر ایک رکعت ہے۔ابو داؤد نسائی اور ابن ماجہ وغیرہ میں ہے جو ایک وتر پڑھنا چاہے وہ پڑھ لے باوجود ان صحیح حدیثوں کے حنفی مذہب ایک وتر کا قائل نہیں۔وہ ان حدیثوں کو نہیں مانتا،چنانچہ حنفی مذہب کی معتبر اور بہتر کتاب ’’ہدایہ،کتاب الصلوۃ،باب صلوۃ الوتر،ص۱۲۴ ‘‘میں ہے:
Flag Counter