Maktaba Wahhabi

35 - 215
انہیں ہر چند سمجھایا بجھایا روکا ٹوکا،مگر وہاں تو کچے گھڑے کی چڑہی ہوئی تھی نہ مانے اڑگئے،ہاتھ پاؤں جھاڑ کر اسی کے پیچھے پڑ گئے،چنانچہ یہی کر کے رہے،من وسلویٰ اور لہسن پیاز میں کسی حد تک مناسبت تو تھی لیکن ان کے ہاں گو ناموں میں ہمرنگی،ہو جنس میں بالکل بیگانگت تھی۔یعنی انہوں نے قرآن وحدیث کے من وسلویٰ کے بدلے رائے قیاس کے لہسن پیاز کو ترجیح دی۔یہ قدرتی قانون ہے کہ جس طرح طوطااپنے ساتھ کوے کو پسند نہیں کرتا،کوا بھی طوطے کا ساتھ نہیں چاہتا،جب انہوں نے رائے قیاس اور تقلید و فقہ سے اپنی جیبیں پر کر لیں تو ان کے ہاتھ سے قرآن و حدیث جاتا رہا۔کسی کی بات پر کان نہ دھر کر برا بھلا کہہ دینا تو اور بات ہے لیکن سمجھ کر جواب دینا یا تسلیم کر لینا یہ بے شک عقلمندی ہے میں پوچھتا ہوں اور فقہ کے ایک ایک شیدائی سے تقلید کے ایک فدائی سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ سچ نہیں؟کہ تقلید کے قبول کرلینے کے بعد آپ کو حلال حرام معلوم کر نے کے لئے،نماز روزے کے مسائل جاننے کے لئے،جان،مال کے حقوق پہچاننے کے لئے،غرض کسی امر دین کے حکم کے لئے قرآن وحدیث کے ضرورت باقی رہی؟کیا آپ چھوٹے سے لے کر بڑے تک ایک مسئلہ بھی قرآن اور حدیث سے لے سکتے ہیں؟کیا لاکھوں کروڑوں سوالات میں سے ایک کا بھی جواب آپ قرآن و حدیث سے دے سکتے ہیں۔ ہر روز تو اے مہر درخشاں ہے کہیں اور ہررات تو اے شمع شبستاں ہے کہیں اور مقلد قرآن و حدیث سے کوئی مسئلہ نہیں لے سکتا ہمارے بھولے بھالے عام بھائیو کا تو ہم نہیں کہہ سکتے،نہ ان کی نسبت ہم کوئی دعوی کر سکتے ہیں جنہیں تقلیدی کنڈل سے باہر نکلنے کا کبھی موقع ہی نہیں ملا جو آزادی
Flag Counter