آپ کی شان میں گستاخی سے پیش آتی تھی ایک صحابی نے اس کا گلا گھونٹ کر اس کو مار ڈالا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس صحابی سے کوئی قصاص نہ لیا بلکہ اس کا خون برباد کر دیا اور صحابی کو معاف فرما دیا‘‘(رواہ ابو داؤد،ج دوم،ص۶۰۰)
بلکہ اور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’الا اشھد وا ان دمھا‘‘
ترجمہ:’’یعنی اے لوگو!تم گواہ رہو اس کا خون رائگاں ہے کوئی قصاص نہیں ‘‘
اس حدیث کے مطابق اہلحدیث کا مذہب ہے کہ پیغمبر انس و جن حضرت احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو ذمی کافر گالیاں دے آپ کی شان میں بے ادبی کرے اس کا ذمہ ٹوٹ جاتا ہے بلکہ وہ شرعاً واجب القتل ہے۔لیکن آہ اس حرمت کو حنفی مذہب نے توڑ دیا وہ صاف لکھتا ہے:
’’ومن امتنع من الجزیۃ او قتل مسلما او سب النبي علیہ السلام او زنی بمسلمۃ لم ینتقض عھدہ‘‘
ترجمہ:’’یعنی جو ذمی کافر جزیئے سے انکار کرے یا کسی مسلمان کو قتل کر ڈالے یا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دے یا کسی مسلمان عورت سے زنا کرے تو بھی اس کا ذمہ نہیں ٹوٹتا‘‘
حنفی بھائیو!دونوں مذہب ومسلک آپ کے سامنے ہیں فرمایئے کونسا مقبول اور کونسا مردود؟
خون مسلم کی ارزانی:
(۹۳)’’عن علی ان النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم الالا یقتل مسلم بکافر‘‘
|