Maktaba Wahhabi

136 - 215
ترجمہ:’’یعنی ابو داؤد کے اکثر نسخوں میں یہ حدیث ہے ہی نہیں۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ ابو داؤد میں ہی اسی صفحہ پر اسی باب میں ’’فوق السرۃ ‘‘کا لفظ بھی ہے یعنی ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے سنت ہیں۔پھر جناب سے گذارش ہے کہ اگر واقعی یہ حدیث صحیح ہے تو آپ نے اپنی عورتوں کو اس حدیث پر عمل کرنے سے کیوں روک رکھا ہے؟کیا کوئی حدیث جناب کی نظر ایسی بھی گذری ہے جس میں ہو کہ مرد تو ناف کے نیچے ہاتھ باندہیں اور عورتیں سینے پرہاتھ باندھیں؟ سینے پر ہاتھ باندہنے کی حدیث: (۱۰۱)بر خلاف اس کے صحیح اور صریح حدیث میں ہے: ’’عن وائل بن حجر قال صلیت مع رسول اللّٰہ صلی اللّٰه علیہ وسلم یدہ الیمنی علی الیسری علی صدرہ‘‘ ترجمہ:’’یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنا داہنا ہاتھ اپنے سینے پر باندھتے تھے‘‘(صحیح ابن خزیمہ وبلوغ المرام) لیکن حنفی مذہب اس کا منکر ہے۔چنانچہ ’’ہدایہ جلداول کتاب الصلوۃ باب صفۃ الصلوۃ،ص۸۶‘‘میں ہے: ’’ویعتمد بیدہ الیمنی علي الیسری تحت السرۃ‘‘ ترجمہ:’’یعنی دائیں ہاتھ سے بائیں کو تھام لے ناف کے نیچے‘‘ اب دیکھیں موجودہ حنفی اس حدیث کو مانتے ہیں یا اپنی فقہ کو؟یہ بھی نہ بھلایا جائے کہ سینے پر ہاتھ باندھنے کی آٹھ حدیثیں مروہ ہیں ملاحظہ ہوں میری کتاب دلائل محمدی۔
Flag Counter