Maktaba Wahhabi

116 - 236
’’اگر تھوڑا تھوڑا اپنے آپ کو سنائے تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ 9۔ امام بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب ’’القراءة ‘‘میں لکھا ہے: ’’اِقْرَأْ بِہَا فِیْ نَفْسِکَ‘‘کا مطلب یہ ہے کہ اسے آہستہ لفظاً پڑھا جائے،بلند آواز سے نہ پڑھا جائے۔اسے دل میں غور و تدبر کرنے کے معنوں پر محمول کرنا جائز نہیں،کیوں کہ اہلِ عرب کا اتفاق ہے کہ اسے قراء ت نہیں کہتے اور اہلِ علم کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ لفظ ادا کیے بغیر دل میں غور کرنا نہ شرط ہے نہ مسنون،لہٰذا جس بات کا کوئی بھی قائل نہ ہو،اس پر حدیث کو محمول کرنا جائز نہیں۔[1] 10۔ امام نووی رحمہ اللہ کی شہرۂ آفاق کتاب الاذکار کے حوالے سے ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ نماز میں اذکار کی ادائیگی زبان سے مطلوب ہے۔[2] 11۔ ایسے ہی’’مختصر الفتاوی المصریہ‘‘کے حوالے سے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا فتویٰ بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ جو شخص زبان کو حرکت دیے بغیر نماز پڑھنے کو جائز کہے،اس سے توبہ کرائی جائے۔[3] 12۔ ایسے ہی شرح مسلم میں امام نووی رحمہ اللہ نے بھی لکھا ہے کہ قراء ت کا اطلاق زبان کو حرکت دینے پر ہوتاہے۔[4] 13۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے بھی موطا کی فارسی شرح میں’’اِقْرَأْ بِہَا فِيْ نَفْسِکَ یَا فَارِسِيُّ‘‘کا معنی یہ لکھا ہے: ’’گفت بخواں آں را در نفسے خود اے فارسی یعنی آہستہ بخواں تا غیرِ تو بغنود۔‘‘
Flag Counter