Maktaba Wahhabi

115 - 236
’’أَيْ یُصَلِّيْ بِلِسَانِہٖ خَفِیّاً‘‘ ’’سننے والا آہستہ آہستہ درود پڑھ لے۔‘‘ ’’شرح وقایۃ‘‘میں سامِعْ کے درود پڑھنے کے انداز کے بارے میں لفظ ہی صاف وارد ہوا ہے: ’’فَیُصَلِّيْ سِرّاً‘‘،’’وہ آہستگی سے پڑھ لے۔‘‘ 5۔ علامہ بدر الدین عینی نے’’شرح کنز‘‘میں اس کا معنی یوں کیا ہے: ’’یُصَلِّيْ السَّامِعُ وَ یُسَلِّمُ فِيْ نَفْسِہٖ سِرًّا اِمْتِثَالاً لِأَمْرٍ‘‘[1] ’’امرِ الٰہی کی تعمیل کرتے ہوئے سننے والا آہستگی سے دردو و سلام پڑھ لے۔‘‘ گویا ﴿ فِي نَفْسِكَ﴾ كا معنی سراً معروف ہے۔ 6۔7۔ ان علمائے احناف کے علاوہ مولانا عبد الحیٔ نے علامہ باجی مالکی سے نقل کرتے ہوئے’’التعلیق الممجد‘‘میں لکھا ہے: ’’ہِيَ بِتَحْرِیْکِ الِّلسَانِ بِالتَّکْلِیْمِ وَاِنْ لَّمْ یُسْمِعْ نَفْسَہٗ سِرّاً‘‘ ’’یہ زبان کو ہلاتے ہوئے پڑھنا ہے،اگرچہ اپنے آپ کو نہ سُنا سکے۔‘‘ آگے لکھتے ہیں:’’یہ قول سحنون نے قاسم سے روایت کیا ہے۔‘‘ 8۔ خود علامہ باجی رحمہ اللہ نے کہا: ’’لَوْ اَسمَعَ نَفْسَہٗ یَسِیْراً کَانَ أَحَبَّ إِليَّ‘‘[2]
Flag Counter