Maktaba Wahhabi

32 - 236
’’إِنَّ الْإِمَامَ لَا یَتَحَمَّلُ عَنِ الْمُقْتَدِيِّ فِيْ صَلَاۃِ الْمُخَافَتَۃِ‘‘[1] ’’امام سری نمازوں میں مقتدی کی طرف سے قراء ت کامتحمل نہیں ہو سکتا۔‘‘ نیز عمدۃ القاری میں ہے: ’’بَعْضُ أَصْحَابِنَا اِسْتَحْسَنُوْا ذَلِکَ عَلیٰ سَبِیْلِ الْاِحْتِیَاطِ فِيْ جَمِیْعِ الصَّلَاۃِ‘‘[2] ’’ہمارے بعض اصحاب نے احتیاطاً تمام نمازوں میں قراء تِ فاتحہ خلف الامام کو مستحسن قرار دیا ہے۔‘‘ 6۔ علامہ علی قاری معروف ملا علی قاری رحمہ اللہ کا میلان بھی اسی طرف ہے،چنانچہ وہ مرقات شرح مشکات(۲؍۳۰۱) میں لکھتے ہیں: ’’ہمارے ائمہ میں سے امام محمد رحمہ اللہ سری نمازوں میں مقتدی کے لیے فاتحہ پڑھنے کے معاملے میں امام شافعی رحمہ اللہ کے موافق ہیں اور یہی بات حدیث کی مختلف روایات کے ما بین مطابقت و موافقت پیدا کرنے کی ایک واضح صورت ہے۔امام مالک رحمہ اللہ کا بھی یہی مذہب ہے۔‘‘[3] 7۔ علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ نے جو لکھا ہے کہ ترکِ فاتحہ کا قول قوی ہے،اس کی تردید کرتے ہوئے شرح موطا میں علامہ قاری نے لکھا ہے کہ احتیاط اسی میں ہے کہ اختلاف سے بچا جائے۔مکروہ کام کا ارتکاب فساد سے اولیٰ ہے اور فاتحہ نہ پڑھنے میں،پڑھنے کی نسبت زیادہ فساد ہے اور ہر دو بات میں سے قوی بات جمع و تطبیق ہی ہے(یعنی سری نمازوں میں مقتدی کا بھی فاتحہ پڑھنا) نہ کہ اس کا ممنوع ہونا،جب کہ
Flag Counter