Maktaba Wahhabi

73 - 236
’’اس حدیث کا ظاہر یہ بتارہا ہے کہ اکیلے اور مقتدی کے لیے سری قراء ت والی یا جہری قراء ت والی تمام نمازوں میں سورت فاتحہ کا پڑھنا واجب ہے۔‘‘ مزید لکھتے ہیں: ’’منفرد یا اکیلے پر قراء ت کا واجب ہونا توظاہر ہے،جب کہ مقتدی کا بھی اس حکم ہی میں شامل ہونا بھی واضح ہے۔اس کی مزید وضاحت ابو داود،ترمذی،ابن حبان اور مسند احمدکی اس روایت سے ہو جاتی ہے جس میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے پوچھا:’’شاید تم اپنے امام کے پیچھے قراء ت کرتے ہو؟ تو انھوں نے کہا:جی ہاں۔تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’قراء ت نہ کیا کرو سوائے سورت فاتحہ کے،کیوں کہ اسے پڑھے بغیر نماز ہی نہیں ہوتی۔‘‘یہ دلیل ہے کہ قراء تِ فاتحہ بالخصوص امام کے پیچھے مقتدی کے لیے واجب ہے،جیسا کہ صحیح بخاری ومسلم کے الفاظ کا عموم دلالت کرتا ہے اور یہ ہر نماز کے لیے عام ہے وہ سری ہو یا جہری اور ہر رکعت کے لیے ہے۔شافعیہ کا یہی مذہب ہے۔‘‘[1] 12۔ معروف محدث و مفسر اور مجتہد امام شوکانی رحمہ اللہ’’منتقی الأخبار‘‘کی شرح’’نیل الأوطار‘‘میں فرماتے ہیں: ’’یہ حدیثِ عبادۃ بن صامت رضی اللہ عنہ نماز میں سورت فاتحہ کے متعین ہونے کی دلیل ہے اور اس بات پر بھی دلالت کرتی ہے کہ اس فاتحہ کی جگہ کوئی دوسری آیت کفایت نہیں کر سکتی۔امام مالک و شافعی رحمہما اللہ جمہور صحابہ رضی اللہ عنہم،تابعین کرام رحمہم اللہ اور ان کے بعد آنے والوں میں سے بھی
Flag Counter