Maktaba Wahhabi

239 - 325
(۲) آپ نے جواب میں فرمایا ’’تم چاہو تو دعا کردوں ‘لیکن صبر کرو تو بہتر ہے۔‘‘ (۳) اندھا دعا پر اصرار کرتا ہے اور کہتا ہے ’’فَادْعُہٗ‘‘(آپ اللّٰہ سے دعا فرمائیے) (۴) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اندھے و جو دعا سکھلائی تھی اس کے آخر میں اس نے کہا ’’اَللّٰہُمَّ شَفْعْہُ فِی‘‘اے اﷲمیرے بارے میں آپ کی شفاعت قبول فرما۔ اس حدیث کاہر ٹکڑا دعاکو ثابت کررہا ہے۔اندھے کا دعاکی درخواست کرنا ‘آپ کی طرف سے دعا اور صبر میں سے کسی ایک کو اختیار کرنے کی تلقین فرمانا ‘لیکن اندھے کا دعا پر اصرار کرنا ‘آپ کا اندھے کو دعا سکھانا اور خود بھی دعا فرمانا ‘اور اندھے کا دعا کی قبولیت کیلئے دعاکرنا۔یہ سب باتیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ اس حدیث میں آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی ذات مبارک کاوسیلہ لینے کاکوئی تصور ہی نہیں بلکہ صرف دعاکے وسیلہ کی تکرار ہے اور دعا کا وسیلہ مشروع ہے۔ؤپ نے دعا فرمائی اور اندھے نے بھی۔اﷲنے دعا قبول فرمائی اور اندھا بینا ہوگیا۔ اگرآپ کے جاہ ‘حق اور ذات کا وسیلہ مقصود ہوتا تو اس اندھے کو تکلیف اٹھا کر آنحضرت صلی اﷲعلیہ وسلم کی مجلس میں آنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔وہ اپنے گھرمیں بیٹھا بیٹھا یہ دعا کرلیتا کہ اے اﷲاپنے نبی کے جاہ ومرتبہ کے وسیلہ سے میری روشنی لوٹادے ‘لیکن ایسا نہ وہ سمجھتا تھا ‘نہ صحابہ کرام ہی اس قسم کے وسیلہ سے واقف تھے۔نہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اجازت دیتے۔نیز صحابہ کرام محدثین وائمہ کرام میں سے کسی نے اس واقعہ سے شخصیت اور ذات نبوی صلی ا ﷲ علیہ وسلم کے وسیلہ کو
Flag Counter