Maktaba Wahhabi

86 - 325
ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی قوم سے بحث کر رہے ہیں اور اُن کو سمجھا رہے ہیں کہ جن بُتوں کو تم اور تمہارے آباء واجداد پُوجتے رہے ہیں وہ ہر گز بندگی کے مستحق نہیں ہیں۔عبادت کے لائق تو صرف اللہ کی ذات ہے،وہی سب کا رب ہے،وہی بندوں کو حق کی راہ دِکھاتا ہے،وہی کِھلاتا اور پلاتا ہے،بیمار پڑو تو وہی شفا دیتا ہے،وہی موت دیتا ہے اور زندگی بخشتا ہے،اور وہی قیامت کے دن اپنے عفو وکرم سے اپنے بندوں کی خطائیں معاف کرے گا۔ اللہ رب العزت کی ان اعلیٰ صفات کے ذکر کو وسیلہ بنا کر حضرت ابراہیم علیہ السلام اب دعا فرماتے ہیں کہ ’’اے میرے رب،مجھے علم ودانش عطا فرما اور نیکوکاروں میں شامل کر اور پچھلے لوگوں میں میرا ذکرِ خیر جاری رکھ اور مجھے جنت النعیم کا وارث بنا۔آمین۔‘‘ غور فرمائیے:حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس وسیلہ کی تعلیم کس نے دی؟ظاہر ہے کہ انہوں نے خود اپنی طبیعت سے ایسا کیا نہیں ہو گا،کیونکہ انبیاء کرام اپنی من مانی تو کہتے نہیں تھے،بلکہ ان کا قول وعمل سب اللہ کے حکم اور وحی کے مطابق ہوتا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ان دعاؤں کا ذکر بھی محض اس لئے کیا ہے کہ ہم ان کے وسیلے کا طریقہ سیکھیں اور اس پر عمل کریں۔ ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ قرآں مجید میں دوسرے مشہور انبیاء کرام کی دُعائیں بھی اس مشروع وسیلے اور طریقے کے ساتھ مذکور ہیں،لیکن طوالت کے خوف سے ان کا ذکر نہیں کیا جا رہا ہے۔نیز انبیاء سابقین میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا جو اعلیٰ مقام ہے
Flag Counter