Maktaba Wahhabi

178 - 868
ورنہ اسی حالت میں بغیر تیمم کے نماز پڑھے،کیونکہ نجاست کے دور کرنے میں تیمم کا کوئی اثر نہیں ہے۔بلکہ مطلوب یہ ہے کہ جسم نجاست سے صاف ہو،تو اگر اس کے لیے تیمم کرے گا تو اس سے نجاست زائل نہ ہو گی،نیز یہ بھی ہے کہ تیمم ازالہ نجاست کے لیے شروع نہیں کیا گیا ہے۔اور عبادات کی بنیاد سراسر اتباع (کتاب و سنت) ہی پر ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:اگر کسی کے پاس پانی ہو مگر وہ تمام اعضاء کے دھونے کے لیے ناکافی ہو تو کیا کیا جائے؟ جواب:ایسے شخص کے ذمے ہے کہ جس قدر پانی موجود ہے اس سے اپنے اعضاء دھوئے اور باقی کے لیے مسح کرے۔اگر یہ آدمی پانی کے ہوتے ہوئے تیمم کرے گا،تو اس کے لیے یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ اس کے پاس پانی نہیں ہے۔اور س بات کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان ہے: فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا (المائدہ 5؍6) "پس (اگر) پانی نہ پاؤ تو تیمم کر لو۔" اور یہ فرمان ہے: فَاتَّقُوا اللّٰهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ (التغابن 64؍16) "اور اللہ سے ڈرو جتنا کہ تم میں طاقت ہو۔" اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: "وَإذَا أمَرْتُكُمْ بِأمْرٍ فَأْتوا مِنْهُ مَا اسْتَطَعْتُمْ" "جب میں تمہیں کسی بات کا حکم دوں تو جتنی تم میں اس کی طاقت ہو اس پر عمل کرو۔" [1] تو آدمی جب اس پانی سے جو ممکن ہوا اپنے اعضاء دھوئے گا تو اس میں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے والا ہو گا،اور باقی اعضاء میں وہ معذور ہو گا،تو اس کے بدل کی طرف رجوع کیا جائے گا۔اور ان دونوں حکموں میں کوئی تضاد نہیں ہے،کیونکہ پانی کا استعمال اللہ کا تقویٰ ہے،اور پانی نہ ہونے کی صورت میں تیمم کرنا بھی اللہ کا تقویٰ ہے۔ اور جو ہم نے کہا اس کے لیے حدیث نبوی سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا تھا،جو زخمی ہو گیا تھا،کہ "تجھے یہی کافی تھا کہ تیمم کر لیتا اور اپنے زخم پر کپڑا باندھ لیتا پھر اس پر مسح کر لیتا۔"[2] اگر یہ کہا جائے کہ یہاں بدل اور مبدل منہ دونوں کو جمع کر دیا گیا ہے (یعنی تیمم اور پانی کا استعمال) تو یہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟
Flag Counter