Maktaba Wahhabi

45 - 868
عقل و سمجھ سے بالا ہے،اس پر ایمان رکھنا واجب ہے اور اس کے متعلق سوال کرنا بدعت ہے۔" الغرض!اس قسم کے مسائل میں بہت زیادہ گہرائی میں جانا بدعت ہے۔حالانکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حصولِ علم اور طلبِ خیر میں ہم سے بہت بڑھ کر تھے،انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے سوال نہیں کیے اور یہ لوگ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ مندرجہ بالا تفصیل میں یوم آخرت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے یہی قاعدہ اور اصول اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ہے جو اس نے اپنے بارے میں بیان فرمائی ہیں۔مثلا:علم،قدرت،سمع،بصر اور کلام وغیرہ۔ان صفات کا اللہ کے لیے استعمال ویسے ہی ہے جیسے اس کی ذات والا شان کو لائق ہے انسان یا مخلوق کی صفات کے ساتھ ان کی قطعا کوئی مشابہت نہیں ہے صرف الفاظ کی حد تک مشابہت ہے۔صفات ہمیشہ اپنے موصوف کے تابع ہوتی ہیں تو جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کا کوئی مثیل نہیں ہے اسی طرح اس کی صفات میں بھی کوئی اس کا مثیل نہیں ہے۔ خلاصۃ الجواب یہ ہے کہ آخرت کا دن ایک ہی ہے جو کافروں کے لیے انتہائی مشکل اور بھاری ہے مگر اہل ایمان کے لیے ازحد آسان اور ہلکا ہے اور اس میں بیان کیے گئے ثواب و عقاب کی حقیقت کو اس دنیا میں نہیں جانا جا سکتا اگرچہ ان الفاظ کے معانی ہمیں اس دنیا میں معلوم ہیں۔(محمد بن صالح العثیمین) اعمال کا ترازو ایک ہے سوال:کیا ترازو (میزان اعمال) ایک ہے یا متعدد؟ جواب:اس بارے میں علماء کے اقوال مختلف ہیں۔کچھ نے کہا:میزان کئی ہیں اور کچھ نے کہا صرف ایک ہے۔وجہ اس کی یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اس کے لیے کہیں جمع کا صیغہ آیا ہے اور کہیں مفرد کا۔مثلا:اللہ عزوجل کے فرامین میں جمع کا صیغہ اس طرح ہے: وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ (الانبیاء 21؍47) "اور ہم انصاف کےترازو رکھیں گے۔" اور سورۃ القارعہ میں فرمایا: فَأَمَّا مَن ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ﴿٦﴾ "جس کے تول بھاری ہو گئے۔" اور مفرد صیغہ کے ساتھ معروف حدیث میں آیا ہے:
Flag Counter