Maktaba Wahhabi

267 - 868
"عورتوں کو جلدی نہیں مچانی چاہیے حتیٰ کہ وہ پھایہ کو خوب سفید دیکھ لیں۔"[1] کیونکہ خون کسی وقت جاری رہتا اور کسی وقت رک جاتا ہے،اور محض اس کے رک جانے سے طہر ثابت نہیں ہوتا مثلا اگر ایک گھنٹے بھر کے لیے یا اس سے کم کے لیے رکا ہو۔صاحب مغنی (علامہ ابن قدامہ حنبلی) نے یہی قول اختیار کیا ہے۔(مجلس افتاء) ایام نفاس میں نمازوں کے مسائل سوال:جب عورت کو نفاس کی ابتدا ہو رہی ہو اور ان دردوں کی وجہ سے وہ دو یا تین تک نمازیں نہ پڑھ سکی ہو اور نہ ہی خون جاری ہوا ہو تو کیا اسے ان دنوں کی نمازوں کی قضا دینی ہو گی؟ جواب:ہاں،اسے یہ نمازیں پڑھنی ہوں گی کیونکہ اس قسم کی مرض یا دردوں کی وجہ سے نماز کا وجوب ساقط نہیں ہوتا بالخصوص جب خون بھی جاری نہ ہوا ہو کہ اسے نفاس کہا جائے۔(عبدالرحمٰن سعدی) سوال:کیا نفاس والی عورت اگر چالیس دنوں سے پہلے ہی پاک صاف ہو جائے تو وہ نماز روزہ اور حج کر سکتی ہے؟ جواب:ہاں اس کے لیے جائز ہے کہ وہ نماز پڑھے،روزہ رکھے،حج و عمرہ کرے اور زوجین کا تعلق بھی قائم ہو سکتا ہے خواہ وہ بیس دنوں بعد ہی پاک ہو جائے،اسے چاہیے کہ وہ غسل کر کے اپنے شرعی معمولات کر دے۔اور حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے جو اس کی کراہت منقول ہوئی ہے وہ کراہت تنزیہی ہے،اور وہ بھی ان کا اجتہاد ہے۔اللہ ان پر رحم فرمائے۔ان کی اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے۔ اور حق و صواب یہی ہے کہ جب عورت چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جائے تو یہ طہر بالکل صحیح ہے،ہاں اگر چالیس دنوں کے اندر دوبارہ خون شروع ہو جائے تو یہ نفاس شمار ہو گا،اور طہارت کے دنوں میں اس کا نماز روزہ اور حج وغیرہ سب صحیح ہوں گے،اور کسی کی قضا نہیں دینی ہو گی،بشرطیکہ یہ سب کچھ طہر میں کیا گیا ہو۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:عورت جب ولادت کی دردیں محسوس کرے تو کیا اسے نماز پڑھنی ہو گی؟ جواب:عورت جب تک حیض و نفاس سے پاک ہو نماز کی پابند ہے۔اگر ولادت سے ایک دو دن پہلے خون آنا شروع ہو جائے تو یہ نفاس کا حصہ ہے،اس صورت میں نماز نہیں پڑھے گی۔لیکن اگر صرف دردیں ہوں خون شروع نہ ہو تو نماز پڑھنی ہو گی۔جیسے کہ دوسرے مریض ہوتے ہیں کہ درد و الم میں مبتلا ہونے کے باوجود وہ نماز کے پابند ہوتے ہیں۔(عبداللہ بن جبرین)
Flag Counter