بڑے مہذب اور ترقی یافتہ سمجھتے ہیں ان کے نزدیک ناخنوں کو بڑھائے رکھنا کوئی عیب نہیں ہے جبکہ ان میں میل کچیل جمع ہو جاتی ہے اور انسان درندوں کے مشابہ ہو جاتا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جانور ذبح کرنے کے سلسلے میں ارشاد فرمایا تھا کہ:
"جو خون بہا دے اور اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو تو وہ کھا سکتا ہے مگر (وہ خون بہانے کی چیز) دانت یا ناخن نہ ہو۔دانت تو ہڈی ہے اور ناخن حبشیوں کی چھری ہے۔"[1]
مقصد یہ ہے کہ حبشی لوگ اپنے ناخنوں کو بطور چھری کے استعمال کرتے ہیں اور اس کے ذریعے سے گوشت وغیرہ کاٹتے ہیں۔تو ناخن بڑھانا ان حبشیوں اور حیوانات کے مشابہ ہے۔(محمد بن صالح عثیمین)
سوال:اپنے ناخنوں کو چالیس دن سے زیادہ چھوڑے رکھنا کیسا ہے؟
جواب:اس میں تفصیل ہے:اگر یہ عمل کفار کی پیروی میں ہو جن کی فطرت ہی مسخ ہو چکی ہے تو یہ کام حرام ہے۔کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
"جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے تو وہ ان ہی میں سے ہے۔"[2]
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ:
"اس حدیث سے کم از کم یہ بات ضرور معلوم ہوتی ہے کہ ایسا کام حرام ہے،اگرچہ اس کے ظاہر کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ان کی مشابہت کرنے والا کافر ہے۔"
اور اگر ناخن بڑھانے کا سبب محض خواہش نفس ہو جیسے کہ انسان کی طبیعت میں ہوتی ہے تو یہ عمل خلاف فطرت ہے اور اس ارشاد نبوی کی مخالفت ہے جو آپ نے اپنی امت کے لیے اس مسئلہ میں مقرر فرمایا ہے۔(محمد بن صالح عثیمین)
سوال:بال یا ناخن کاٹنے کے بعد انہیں دفن کرنے کا کیا حکم ہے؟
جواب:یہ بات کچھ علماء سے ذکر کی گئی ہے کہ انہوں نے بال اور ناخن کاٹنے کے بعد دفن کر دینا عمدہ اور بہتر کہا ہے اور کچھ صحابہ سے بھی یہ منقول ہے۔اور یہ بات کہ انہیں کسی کھلی جگہ میں رہنے دینا یا کسی جگہ پھینک دینا،گناہ کا کام ہو تو ایسی کوئی بات نہیں ہے۔(محمد بن صالح عثیمین)
|