Maktaba Wahhabi

215 - 868
لنگوٹ باندھ لے اور وضو کر لے اور یہ سب فرض نماز کا وقت شروع ہونے پر کرے اس سے پہلے نہ کرے اور پھر نماز پڑھے۔اور اگر فرض نمازوں کے اوقات کے علاوہ میں نوافل پڑھنا چاہتی ہو تو بھی اسے ایسا ہی کرنا ہو گا۔اس کے لیے اس کیفیت اور مشقت کی وجہ سے رخصت ہے کہ ظہر کو عصر کے ساتھ یا عصر کو ظہر کے ساتھ جمع کر لے اور ایسے ہی مغرب کو عشاء کے ساتھ یا عشاء کو مغرب کے ساتھ جمع کر لے۔اس طرح اسے یہ ساری محنت دو نمازوں کے لیے ایک بار کرنا پڑے گی۔ایک دفعہ ظہر و عصر کے لیے اور ایک دفعہ مغرب و عشاء کے لیے اور ایک دفعہ فجر کے لیے،بجائے اس کے کہ پانچ نمازوں کے لیے پانچ بار کرے اسے تین بار کرنا ہو گی۔اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا اس طرح کی عورت کے لیے جائز ہے کہ فجر کے وضو سے چاشت کی نماز بھی ادا کر لے ۔۔؟ جواب؛ یہ صحیح نہیں ہے،کیونکہ چاشت کی نماز کا اپنا ایک وقت ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس نماز کا وقت شروع ہونے کے بعد نیا وضو کرے۔کیونکہ یہ مستحاضہ کی طرح ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مستحاضہ کے لیے یہی ارشاد فرمایا ہے کہ وہ ہر نماز کے لیے نیا وضو کرے۔[1] چنانچہ ظہر کا وقت سورج ڈھلنے سے لے کر عصر تک ہے۔اور عصر کا وقت ظہر کا وقت ختم ہو جانے کے بعد سے لے کر سورج زرد ہونے تک ہے یا بصورت ضرورت سورج غروب ہونے تک ہے۔اور مغرب کا وقت سورج غروب ہونے سے لے کر شفق کے غروب تک ہے۔اور عشاء کا وقت سرخ شفق کے غروب سے لے کر آدھی رات تک ہے۔اور فجر کا وقت صبح صادق سے لے کر سورج ن کلنے تک ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا اس عورت کے لیے جائز ہے کہ آدھی رات کے بعد قیام اللیل (تہجد) کے لیے عشاء کے وضو سے ہی یہ نماز پڑھ لے ۔۔؟ جواب:اس عورت کو چاہیے کہ اس عارضہ سے پہلے کی عادت پر عمل کرے۔اسے مہینے کے شروع میں چھ دن حیض کے قرار دینے چاہییں اور ان کے لیے حیض کا حکم ہو گا،اور اس کے بعد استحاضہ ہے۔اسے غسل کر کے نماز روزہ شروع کر دینا چاہیے اور خون کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ۔اس کی دلیل یہ ہے کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے کہا:اے اللہ کے رسول!مجھے استحاضہ آتا ہے اور میں پاک نہیں رہتی ہوں،تو کیا نماز چھوڑ دوں؟ آپ نے فرمایا:نہیں،یہ ایک رگ کا خون ہے،تجھے چاہیے کہ ان ایام کے بقدر جو تجھے پہلے حیض آتا تھا نماز چھوڑے رہ،پھر غسل کر اور نماز پڑھ۔"[2] یہ صحیح بخاری میں ہے اور صحیح مسلم میں ہے کہ
Flag Counter