Maktaba Wahhabi

218 - 868
آؤ جہاں سے کہ تم کو اللہ نے حکم دیا ہے۔" الغرض جب تک یہ ناپاکی اور خرابی کی صورت باقی ہو ۔۔اور اس سے مراد خون ہے ۔۔ملاپ جائز نہیں ہے۔جب اس سے پاک ہو جائے یہ عمل بھی جائز ہو گا جیسے کہ نماز پڑھنا اس کے لیے واجب ہو گا۔اگر وہ چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جاتی ہے تو وہ سب کام کر سکتی ہے جن سے وہ ان دنوں میں رکی رہی تھی اور ان میں سے ایک کام ملاپ بھی ہے۔تاہم بہتر ہے کہ شوہر صبر کرے،کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کے ملاپ کے نتیجے میں کون پھر شروع ہو جائے،حتیٰ کہ چالیس دن پورے ہو جائیں۔ اور عورت اگر چالیس دن پورے ہونے اور اس کے پاک ہو جانے کے بعد پھر دوبارہ خون دیکھے تو اسے حیض کا خون شمار کیا جائے گا،نفاس کا نہیں۔حیض کا خون عورتوں کے ہاں معلوم و معروف ہوتا ہے،تو جب وہ اسے محسوس کرے تو یہ حیض کا خون ہو گا۔اور اگر یہ جاری رہے اور رکے نہیں تو اسے استحاضہ کہیں گے۔تب اسے اپنی حیض کی سابقہ عادت کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔اور ان دنوں اور تاریخوں میں یہ توقف کرے گی،اس کے بعد غسل کرے اور نماز شروع کر دے۔واللہ اعلم (محمد بن صالح عثیمین) سوال:اگر عورت اپنے نفاس سے چالیس دنوں سے پہلے ہی پاک ہو جائے تو اس کے ساتھ مباشرت کا کیا حکم ہے،مثلا اگر وہ ولادت سے ایک ماہ بعد پاک ہو جاتی ہے اور نماز روزہ شروع کر دیتی ہے تو کیا شوہر اس سے قرابت کر سکتا ہے؟ جواب:ہاں،جائز ہے۔تاہم علماء کہتے ہیں کہ چالیس دن پورے ہونے سے پہلے قربت کرنا مکروہ تنزیہی ہے (یعنی پرہیز بہتر ہے) بہرحال اگر یہ عمل ہو جائے تو شرعا اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔اور مکروہ تنزیہی میں وجہ یہ بتاتے ہیں کہ چونکہ وہ ابھی ابھی ولادت کے عمل سے گزری ہے اور اس کا جسم ابھی کامل طور پر اس قابل نہیں ہے حتیٰ کہ چالیس دن پورے ہو جائیں۔تاہم اگر یہ عمل ہو جائے تو اس پر کوئی گناہ نہیں ہو گا بشرطیکہ وہ پاک ہو۔واللہ اعلم (عبداللہ بن حمید) سوال:کیا شوہر کے لیے جائز ہے کہ بیوی کے مرحلۂ ولادت کے بعد چالیس دن پورے ہونے سے پہلے ہی اس سے ملاپ کر لے؟ اگر تیس پینتیس دنوں کے بعد جبکہ وہ پاک ہو چکی ہو یہ کام کر لے تو کیا اس پر کچھ لازم آئے گا؟ جواب:بیوی کے ایام نفاس میں یعنی جب تک ولادت کا خون جاری رہے،اس سے ملاپ کرنا جائز نہیں ہے۔اگر وہ چالیس دنوں سے پہلے پاک ہو جائے تو ملاپ مکروہ یعنی ناپسندیدہ ہے،گناہ نہیں ہے ان شاءاللہ،بشرطیکہ
Flag Counter