Maktaba Wahhabi

223 - 868
ہے چنانچہ وہ اس کا رزق،عمر،عمل اور اس کا بخت آور یا بدبخت ہونا وغیرہ لکھتا ہے۔[1] سو اگر عورت اپنے جنین کو اسی سے کم دنوں میں ساقط کرے تو اس کا یہ خون نفاس کا نہیں ہو گا،کیونکہ اس مدت میں جنین (بچے) کی خلقت واضح نہیں ہوتی ہے۔لہذا اس عورت کو نماز روزہ رکھنا ہو گا جیسے کہ پاک عورتیں رکھتی ہیں۔اور اللہ توفیق دینے والا ہے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:اگر عورت وضع حمل کی کیفیت میں ہو،اور اسے ہسپتال لے جایا گیا،اور اس کے لیے معمول کی ولادت مشکل ہو گئی تو اس کا آپریشن کیا گیا،تو کیا اس کی یہ کیفیت نفاس والی شمار ہو گی،اور اسے معین مدت تک نماز روزہ چھوڑ دینا ہو گا۔اس مسئلہ کی وضاحت فرمائی جائے،اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔۔؟ جواب:ہاں اگر عورت کا اس کی شرمگاہ سے بسبب ولادت خون جاری ہوتا ہے تو یہ نفاس والی شمار ہو گی۔اگر خون بالکل ہی نہیں نکلتا ہے تب یہ نفاس والی نہیں ہو گی اور اس پر نماز روزہ رکھنا فرض ہو گا۔علماء نے ایسے ہی لکھا ہے کہ اگر کسی عورت کو ولادت میں کوئی خون نہیں نکلتا ہے تو یہ نفاس والی نہیں سمجھی جائے گی۔جیسے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس عورت کے متعلق پوچھا گیا جس نے بغیر کسی خون وغیرہ کے بچے کو جنم دیا ہے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ:"اس عورت کو اللہ نے پاک رکھا ہے۔" یعنی یہ نماز پڑھے اور روزہ رکھے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر ولادت میں شرمگاہ سے خون جاری ہو تو یہ نفاس ہے اور اسے پاک ہونے تک توقف کرنا ہو گا۔اس کے بعد غسل کر کے نماز شروع کرے۔اور اگر سرے سے کچھ نہیں نکلتا ہے،تو اسے نماز پڑھنی چاہیے یہ نفاس والی نہیں ہے۔علمائے حنابلہ وغیرہ کا یہی قول ہے۔واللہ اعلم (عبداللہ بن حمید) سوال:ایام نفاس کے دوران چالیس دن تک زرد رنگ کی رطوبت سی آتی رہتی ہے،تو کیا اس صورت میں نماز روزہ رکھا جائے؟ جواب:ولادت کے بعد عورت کے جسم سے جو بھی خارج ہو مثلا خون،زرد یا میلے رنگ کی رطوبت اور آلائش وغیرہ تو اس کا حکم نفاس کا ہے۔کیونکہ یہی فطرت ہے حتیٰ کہ چالیس دن پورے ہو جائیں۔اور اس کے بعد اگر معروف خون آئے اور اس میں کسی قسم کا انقطاع نہ ہو تو یہ نفاس ہی ہو گا،ورنہ استحاضہ وغیرہ ہو گا۔(عبداللہ بن جبرین) سوال:کیا نفاس والی عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے ایام نفاس پورےہونے تک اپنے گھر ہی میں
Flag Counter