Maktaba Wahhabi

286 - 868
دوسرے محلے میں بھی جائیں،خواہ وہ کارکن انجینئر قسم کے لوگ بھی کیوں نہ ہوں،نمازیں جمع کرتے ہوئے ظہر کو تاخیر سے پڑھتے ہیں۔اورجب ان سے کہا جاتا ہے کہ یہ جائز نہیں ہے،تو وہ کہتا ہے کہ میرے پاس دلیل ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے کیا تھا،آپ کے پاس منع کی کیا دلیل ہے۔براہ مہربانی ان کے قول و فعل کی تردید فرمائیے۔ان کے اس قسم کے فتووں سے ہمارے ہاں ایک فتنہ سا برپا ہے،اور یہ لوگ اپنے زعم میں دلیل پر چلتے ہیں۔اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔ جواب:جمع بین الصلاتین کے بارے میں عبادلہ ثلاثہ سے تین حدیثیں آئی ہیں یعنی عبداللہ بن عباس،عبداللہ بن عمر اور عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم۔صحیحین میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو نمازوں کے علاوہ کوئی نماز بے وقت نہیں پڑھی ہے۔آپ نے مغرب اور عشاء کی نمازیں مزدلفہ میں جمع کر کے پڑھیں اور فجر کی نماز اس دن اپنے وقت پر ادا کی۔" اور میں نے اپنی تالیف "صفۃ حجۃ النبی" میں بیان کیا ہے کہ علقمہ کی روایت میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بھی مزدلفہ کی رات سوئے رہے جیسے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سوئے رہے اور فجر طلوع ہوتے ہی بیدار ہو گئے اور فجر کی اذان کہی گئی۔انہوں نے بیان کیا کہ "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ نماز (فجر) اس وقت میں،صرف اسی دن،اسی جگہ،اس وقت میں ادا کرتے تھے۔" یعنی وہ بتانا یہ چاہتے ہیں کہ آپ بالعموم اس وقت میں یہ نماز نہ پڑھا کرتے تھے بلکہ کچھ تاخیر کرتے تھے۔اور اس حدیث سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے استدلال کیا ہے کہ نماز فجر کو فجر کی سفیدی میں پڑھنا زیادہ افضل ہے بجائے اس کے کہ اسے فجر کے اندھیرے (غلس) میں پڑھا جائے۔مگر جمہور اس میں ان کے خلاف ہیں۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو صورت بیان کی ہے،جیسے کہ طبرانی میں آیا ہے،اس سے جمع صوری مراد لی گئی ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت جو طبرانی میں ہے،اس میں ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہم پر نکلے،آپ ظہر کو مؤخر کرتے اور عصر کو جلدی پڑھتے تھے،مغرب کو مؤخر اور عشاء کو جلدی پڑھتے تھے اور ان دونوں نمازوں کو جمع کرتے تھے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کو جمع کرنا کہا ہے۔اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ یہ بیان کرتے ہیں کہ آپ نے کوئی نماز بے وقت کر کے نہیں پڑھی ۔۔تو یہ دلیل ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو جمع بیان کی ہے اس سے "جمع صوری" مراد ہے۔ان روایات میں ایک نکتہ یہی ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی کسی روایت میں جمع کی کوئی صورت واضح نہیں کی گئی ہے اس لیے ان میں تین احتمالات ہیں۔یا تو یہ جمع تقدیم ہو گی یا جمع تاخیر یا جمع صوری اور ان میں سے کوئی ایک ہی عمل میں آئی ہو گی۔کیونکہ یہ عمل ایک ہی بار ہوا ہے،کہیں ایسا ثابت نہیں ہو سکا کہ یہ عمل متعدد بار کا ہو۔لہذا اس میں عموم نہیں ہے۔اس حدیث اور احادیث مواقیت میں جمع کی مناسب صورت یہی ہے کہ اسے جمع صوری پر محمول کیا جائے۔
Flag Counter