Maktaba Wahhabi

312 - 868
نہ کیا جا سکتا تھا۔[1] اور اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:اس بات کی کیا دلیل ہے کہ زندوں کے کچھ اعمال اموات کے لیے مفید ہوتے ہیں اور کچھ مفید نہیں ہوتے؟ جواب:یہ امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بتانے پر موقوف ہیں،جنہیں "امور توقیفیہ" کہا جاتا ہے،ان میں انسان کی اپنی رائے اور قیاس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔انسان صرف وہی کچھ کر سکتا ہے جس کی دلیل موجود ہو،جیسے کہ ایک عام قاعدہ اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ: (مَنْ أَحْدَثَ فِي أَمْرِنَا مَا لَيْسَ مِنْهُ فَهُوَ رَدٌّ) "جو ہمارے اس معاملہ دین میں کوئی نئی بات ایجاد کرے گا،وہ مردود ہے۔"[2] (عبدالعزیز بن باز) سوال:کیا ہم اپنے فوت شدہ والدین کے لیے نماز پڑھ سکتے ہیں،اور اس کی کیا کیفیت ہو گی؟ اس بارے میں ہماری رہنمائی فرمائیں۔جزاکم اللّٰہ خیرا جواب:ماں باپ کے فوت ہو جانے کے بعد ان کی اولاد یا کوئی دوسرا ان کے لیے نماز نہیں پڑھ سکتا۔ہاں ان کے لیے دعا و استغفار اور صدقہ یا حج و عمرہ کیا جا سکتا ہے۔لیکن نماز کوئی کسی کے لیے یا کسی کی طرف سے ادا نہیں کر سکتا۔ہاں مسلمان میت کے لیے اس کے دفن سے پہلے نماز جنازہ ضرور ہے۔اگر کہیں ایسا ہو کہ کوئی دفن سے پہلے اس کے لیے جنازہ نہیں پڑھ سکا ہے تو دفن کے بعد بھی پڑھ سکتا ہے،بشرطیکہ جب دفن کو ایک مہینہ سے زیادہ نہ گزرا ہو،کیونکہ نبی علیہ السلام نے حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی والدہ کے لیے اس کی قبر پر جنازہ پڑھا تھا،اور اس پر ایک مہینہ گزر چکا تھا۔[3] اس طرح طواف کی سنتیں بھی پڑھی جائیں گی،لیکن یہ وہی شخص پڑھ سکتا ہے جو کسی دوسرے کی طرف سے حج یا عمرہ کر رہا ہو،تو طواف کے بعد مسنون دو سنتیں بھی پڑھے گا،اور یہ طواف کے تابع ہیں۔ اور اس مسئلہ میں قاعدہ یہ ہے کہ عبادات سب کی سب توقیفی ہیں،یعنی کوئی عبادت نہیں کی جا سکتی سوائے اس کے جو قرآن و حدیث سے ثابت ہو۔اور اللہ تعالیٰ توفیق دینے والا ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:میں اپنے والدین کے لیے جو بالکل اَن پڑھ ہیں،قرآن کریم پڑھنا اور انہیں بخشنا چاہتا ہوں،کیا یہ
Flag Counter