Maktaba Wahhabi

329 - 868
سوال:عورت کو قبر میں اتارنے کا فریضہ کون سر انجام دے؟ جواب:اگر عورت نے کسی کو وصیت کی ہو کہ فلاں میرے دفن کا اہتمام کرے،تو اس صورت میں ہم اس کی وصیت پر عمل کریں گے۔اگر اس نے کسی کو وصیت نہ کی ہو تو اس کے اقارب و محارم میں سے جو یہ کام اچھی طرح سے کر سکتا ہوں،وہ اسے قبر میں اتارے۔اگر اس کے اقارب و محارم نہ ہوں،یا اچھی طرح سے یہ نہ کر سکتے ہوں،یا قبر میں اترنے سے گھبراتے ہوں تو کوئی بھی آدمی یہ کام کر سکتا ہے۔ اور یہ کوئی شرط نہیں کہ میت کو قبر میں اتارنے کے لیے اس کے محارم میں سے ہونا چاہیے ۔بلکہ کوئی بھی آدمی یہ کام کر سکتا ہے،خواہ وہ اجنبی ہی کیوں نہ ہو۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر (حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ) کی وفات ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبرستان تشریف لے گئے،اور ان کے دفن کا موقعہ آیا،تو آپ نے فرمایا: "تم میں سے کس نے آج رات اپنے اہل سے مقاربت نہیں کی ہے؟ ابوطلحہ رضی اللہ عنہا نے کہا:میں نے،تو آپ نے ان کو حکم دیا کہ وہ قبر میں اتر جائیں۔"[1] باوجودیکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت والد اور جناب عثمان رضی اللہ عنہ ان کے شوہر دونوں ہی حاضر اور موجود تھے۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:اگر میت عورت ہو تو دعائے جنازہ میں اس کے لیے صیغہ مذکر سے دعا پڑھی جائے:" اللّٰهم اغفر له " یا صیغہ مونث سے " اللّٰهم اغفر لها جواب:اس کے لیے دعا صیغہ تانیث کے ساتھ ہونی چاہیے۔ اور یوں کہا جائے ۔۔۔" اللّٰهم اغفر لها وارحمها و عاغها واعف عنها " الخ اگر سامنے دو میتیں ہوں تو صیغہ تثنیہ سے کہا جائے گا ۔۔۔اللّٰهم اغفرلهما الخ اگر زیادہ میتیں ہوں تو ہم کہیں گے:۔۔۔" اللّٰهم اغفرلهم " ۔۔۔الخ،اگر وہ سب عورتیں ہوں تو ہم کہیں گے ۔۔۔" اللّٰهم اغفرلهن " ۔۔۔الخ،اگر مرد اور عورتیں ہوں تو صیغہ مذکر کو ترجیح دی جائے گی اور کہیں گے ۔۔۔" اللّٰهم اغفرلهم " ۔۔۔الخ۔الغرض دعا میت یا اموات کے لحاظ سے ہو اور ضمیر بدل لی جائے۔اور اس کی نظیر بعض وجوہ سے یہ حدیث ہے جو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مسند احمد وغیرہ میں غم و اندوہ کی دعا وارد ہے ۔۔اس میں ہے کہ " اللّٰهُمَّ إِنِّي عَبْدُكَ،ابْنُ عَبْدِكَ،ابْنُ أَمَتِكَ "[2] تو اس میں عورت یوں کہے گی " اللّٰهم انى امتك بنت عبدك،بنت امتك " ۔۔۔الخ (محمد بن صالح عثیمین)
Flag Counter