Maktaba Wahhabi

42 - 868
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ تخفیف عذاب کے لیے یہ چھڑیاں گاڑنے کی کیا حکمت تھی؟ 1: کہا جاتا ہے کہ یہ چھڑیاں جب تک خشک نہ ہوئیں تسبیح کرتی رہیں اور ان کا تسبیح کرنا میت کے لیے تخفیف کا باعث بنا۔چنانچہ اسی سبب سے کچھ لوگوں نے یہ بات نکالی ہے کہ وہ اپنے اموات کی قبروں پر تروتازہ چھڑیاں گاڑتے ہیں۔حالانکہ یہ بات حقیقت سے بہت بعید ہے بلکہ چاہیے کہ قبروں پر جا کر ان کے لیے استغفار کیا جائے تاکہ ان کے عذاب میں تخفیف ہو۔ 2: کچھ علماء نے کہا ہے کہ یہ سبب ازحد کمزور ہے۔کیونکہ یہ چھڑیاں تازہ ہوں یا خشک اللہ کی تسبیح سے رکتی ہی نہیں ہیں۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَن فِيهِنَّ ۚ وَإِن مِّن شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَـٰكِن لَّا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ ۗ(الاسراء 17؍44) "یہ ساتوں آسمان اور زمین اور جو کچھ ان میں ہے اللہ کی تسبیح کر رہے ہیں اور جو بھی کوئی چیز ہے تو وہ اس کی حمد کے ساتھ اس کی پاکیزگی بیان کر رہی ہے لیکن تم ان کے عمل تسبیح کو سمجھ نہیں سکتے ہو۔" اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں میں کنکریوں کی تسبیح بھی سنی گئی ہے حالانکہ کنکریاں خشک ہوتی ہیں۔تو سوال باقی رہا کہ چھڑیوں کی تخفیف عذاب کے ساتھ کیا مناسب تھی؟ اس میں علت یہ معلوم ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل سے یہ امید کی (اور دعا فرمائی) کہ جب تک یہ چھڑیاں تروتازہ رہیں ان کے عذاب میں تخفیف کی جائے،اور مقصد یہ تھا کہ یہ مدت کوئی زیادہ لمبی نہیں ہے۔اور اس عمل میں امت کو تحذیر اور ڈرانا ہے کہ پیشاب سے نہ بچنا یا پردہ نہ کرنا اور چغل خوری جیسے غلط کاموں سے بچتے رہیں کیونکہ یہ کبیرہ گناہ ہیں،جیسے کہ ایک روایت میں آیا بھی ہے کہ " بلى وَ إِنَّهُ كَبِيرٌ" [1] ہاں،یہ بڑے ہیں۔" ایک ان میں سے پیشاب کے بعد استنجا نہ کرتا تھا،جب استنجا نہ کیا تو بلاطہارت نماز پڑھی،اور دوسرا چغل خوری کے ذریعے سے اللہ کے بندوں میں شروفساد پھیلاتا اور ان میں پھوٹ ڈال دیتا تھا۔اس طرح یہ بہت بڑا اور برا عمل ہوا۔اور یہی توجیہ ان شاءاللہ حق کے زیادہ قریب ہے کہ یہ شفاعت ایک وقت کے لیے تھی تاکہ امت کے افراد متنبہ رہیں۔اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دائمی شفاعت سے بخل والی کوئی بات نہیں ہے۔[2]
Flag Counter