Maktaba Wahhabi

437 - 868
کر دیا تھا۔[1] (محمد بن ابراہیم) سوال:ایک باپ نے اپنی صغیر السن بیٹی ایک آدمی کو ہبہ کر دی۔پھر جب باپ فوت ہو گیا اور لڑکی بھی بالغ ہو گئی تو یہ اپنے باپ کے ہبہ کا انکار اور اسے رد کرتی ہے،اور اس آدمی سے جسے یہ ہبہ کی گئی تھی راضی نہیں ہے،اس کا کیا حکم ہے؟ جواب:اگر صورت حال یہی ہے جو ذکر کی گئی ہے تو یہ ہبہ کسی طرح صحیح نکاح نہیں ہے،اور محض اتنی سی بات سے یہ لڑکی اس آدمی کی بیوی نہیں سمجھی جائے گی،کیونکہ اس میں عقد نکاح کی شرطیں موجود نہیں ہیں۔(محمد بن ابراہیم) سوال:اس لڑکی کا کیا حکم ہے جو نکاح کے فسخ کرنے کا مطالبہ کرتی ہے حالانکہ اس کی رضا مندی کے دلائل موجود ہیں؟ جواب:اس مسئلہ میں کہ لڑکی فسخ نکاح کا مطالبہ کرتی ہے،اس وجہ سے کہ وہ اس نکاح پر راضی نہیں،اور شوہر کا اس کے ساتھ ملاپ بھی نہیں ہوا ہے،تو اس نکاح میں ایک طرح سے شبیہ موجود ہے،لڑکی اور اس کے ولی کے بیانات سے بھی واضح ہوتا ہے کہ لڑکی جو کہتی ہے اس میں کچھ صداقت بھی ہے لیکن اگر عقد کے وقت یا اس کے بعد لڑکی کی رضامندی ثابت ہو تو اسے لازمی طور پر اس شوہر کے ہاں بھیجا جائے۔ورنہ (اگر اس کی رضا ثابت نہ ہو تو) یہ عقد فاسد سمجھا جائے گا۔(محمد بن ابراہیم) سوال:کیا یتیم لڑکی کا نکاح اس کی اجازت کے بغیر کیا جا سکتا ہے؟ جواب:یتیم لڑکی کا نکاح اس کا بھائی اس کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا ہے۔بیوہ یا مطلقہ کی اجازت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اپنی زبان سے بول کر رضا مندی کا اظہار کرے۔لیکن کنواری کی اجازت اس طرح ہوتی ہے کہ وہ خاموش رہے،یا "نہیں" نہ کہے۔اور اگر اس کی ماں،خالہ یا بہن موجود ہوں اور وہ اس کی طرف سے،اس کے اپنے بولنے سے پہلے ہی کہہ دیں کہ "یہ راضی ہے" تو اس کی رضا مندی کی اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔
Flag Counter