Maktaba Wahhabi

440 - 868
جواب:وہ لونڈیاں جنہیں حکومت نے آزاد کیا ہو،[1] اور اس کا کوئی ولی نسب مثلا والد،بیٹا یا بھائی وغیرہ موجود نہ ہو تو علاقے کا قاضی (مجسٹریٹ) اس کا عقد نکاح کرا سکتا ہے،بشرطیکہ اس آدمی میں لازمی شرعی شروط پائی جاتی ہوں۔(محمد بن ابراہیم) سوال:ایک عورت اپنے والد کے ساتھ یمن سے طائف آئی،یہاں اس کے والد نے اس کا نکاح کر دیا اور خود ریاض چلا گیا۔کچھ دنوں کے بعد شوہر نے اس لڑکی کو طلاق دے دی تو وہ اپنے والد کے پاس ریاض چلی آئی،پھر والد کی وفات بھی ہو گئی۔اب نہ اس کا والد ہے اور نہ شوہر۔اس کے دو پدری بھائی ہیں جو یمن میں ہیں۔عدت ختم ہونے کے بعد ایک یمنی نے اسے نکاح کا پیغام بھیجا ہے تو کیا یہ عورت اس مقصد کے لیے کسی کو اپنا وکیل بنا سکتی ہے،یا ضروری ہے کہ اس کے بھائی وکیل بنائیں؟ یا انہیں خود یمن سے ریاض آنا ہو گا؟ جواب:اس مسئلہ میں جہاں تک میں سمجھتا ہوں،یہ ہے کہ اگر ممکن ہو تو اس کے بھائی خود آئیں،اگر آ نہیں سکتے تو کسی کو وکیل بنائیں،اگر یہ بھی مشکل ہو یا اس میں طویل انتظار کرنا پڑتا ہو تو علماء کہتے ہیں کہ اگر کسی عورت کا ولی غائب ہو اور اس کا آنا مشکل ہو تو اس کا دور کا ولی اس کی شادی کر دے،اور کوئی بھی ولی موجود نہ ہو تو حاکم (قاضی،جج) اس کا ولی ہے۔جیسے کہ حدیث میں ہے کہ:"سلطان (حاکم) اس کا ولی ہے جس کا اور کوئی ولی نہ ہو۔"[2] تو یہ عورت بسبب اولیاء نہ ہونے کے یا بہت زیادہ دور ہونے کے ایسے سمجھی جائے گی گویا اس کا کوئی ولی نہیں ہے۔(محمد بن ابراہیم) سوال:ایک عورت کی شادی اس کے بھائی نے کر دی،اور باپ نے بھی بعد میں اس پر اپنی رضامندی کا اظہار کیا،تو نکاح کی تصحیح کے لیے کیا کیا جائے؟ جواب:اگر کسی بھائی نے اپنے والد کی وکالت کے بغیر اپنی بہن کی شادی کر دی ہو تو یہ نکاح صحیح نہیں ہے،خواہ بعد میں باپ نے اپنی رضا مندی کا اظہار کر بھی دیا ہو۔اب اس نکاح کی تصحیح اس طرح ہو گی کہ اس کا باپ خود اس کا عقد جدید کرے یا اپنی طرف سے وکیل بنائے خواہ اسی بھائی کو ہی وکیل بنا دے۔(محمد بن ابراہیم) سوال:ایک دوشیزہ کا نکاح اس کے چھوٹے چچا نے کر دیا ہے جبکہ بڑا چچا بھی موجود ہے؟
Flag Counter