Maktaba Wahhabi

460 - 868
"اور ان عورتوں کے استحقاقات بھی اس کی مثل ہیں جو معروف انداز میں ان کے واجبات اور فرائض ہیں۔" اور شوہروں کے لیے بھی حلال نہیں ہے کہ خرچ اخراجات کے سلسلے میں معروف اور واجب سے بخیل بن جائیں۔کیونکہ بعض شوہروں کو دیکھا گیا ہے کہ از حد بخیلی کی وجہ سے وہ لازمی اخراجات سے بھی کنارہ کش رہتے ہیں،تو اس صورت میں عورت کو اجازت ہے کہ اس کے مال سے خواہ بغیر بتائے بھی لینا پڑے تو لے سکتی ہے (مگر معروف اور جائز حد تک)۔ہند بنت عتبہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اپنے شوہر ابوسفیان رضی اللہ عنہ کی شکایت کی کہ وہ ایک بخیل آدمی ہیں،مجھے اتنا خرچ نہیں دیتے ہیں جو میرے اور بچوں کے لیے کافی ہو،تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: "خُذِي مَا يَكْفِيكِ من ماله ويكفى بنيك بِالْمَعْرُوفِ" "تو اس کے مال سے اس قدر لے لیا کرو جو تجھے اور تیرے بچوں کو معروف انداز میں کافی ہو۔"[1] (محمد بن صالح عثیمین) سوال:ایک عورت کو اس کے شوہر نے زندگی میں اس کا حق مہر اور دیگر مالی حقوق ادا کر دیے،تاکہ وہ اور اس کی اولاد اس سے فائدہ اٹھائیں۔بعد میں اگر کوئی شخص اس عورت سے اس کا مدعی بنے اور اس سے قسم اٹھوانا چاہے تو کیا اس کے لیے جائز ہے کہ اس ظلم سے بچنے کے لیے قسم اٹھا لے؟ جواب:اگر شوہر نے بیوی کو اپنی اس اولاد کے لیے جو اس سے ہے،کوئی ہبہ دیا ہو اور وہ قبضے میں لے لیا گیا ہو اور اس میں کسی پر کوئی ظلم بھی نہ کیا ہو تو یہ ہبہ بالکل صحیح ہے،کسی کو حق نہیں ہے کہ اس کے متعلق جھگڑا کرے۔اور اسی طرح اس نے اولاد کا حصہ اس عورت کے حوالے کر دیا ہو،اور عورت ان تصرفات کی اہل ہو تو کسی کو حق نہیں ہے کہ اس میں جھگڑا کرے،اور عورت کو قسم بھی اٹھانی پڑے تو اٹھا لے کہ میرے پاس میت کا کوئی حق نہیں ہے ۔۔واللہ اعلم۔(امام ابن تیمیہ) سوال:ایک عورت جو اپنے شوہر،اولاد اور گھر کے معاملات میں بڑی بے پروا ہے،حق ادا نہیں کرتی بلکہ مطالبہ کرتی ہے کہ مجھے نوکرانی لا کر دی جائے،اس کا یہ مطالبہ کس حد تک قابل قبول ہے؟
Flag Counter