Maktaba Wahhabi

555 - 868
حق ہے کہ اپنی بیٹی کو مجبور کرے کہ وہ اپنے شوہر سے طلاق لے لے۔وہ اسباب جن کے تحت کسی عورت کے لیے جائز ہوتا ہے کہ اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے وہ کچھ اس طرح ہیں،مثلا وہ (شوہر) اس کے حقوق ادا کرنے سے قاصر ہو۔مثلا طعام یا لازمی لباس یا رہائش مہیا کرنے سے عاجز ہو،یا جنون یا برص وغیرہ جیسے کسی موذی مرض میں مبتلا ہو کہ جس کی وجہ سے اکٹھے رہنا محال ہو اور اس وجہ سے آپس میں نفرت پیدا ہوتی ہو،بلکہ جنون میں تو عورت کو اپنی جان کا ڈر ہو سکتا ہے۔ان اسباب کے تحت اگر وہ طلاق طلب کرے تو جائز ہے۔اگر عورت کے مذکورہ بالا قسم کے اسباب کے علاوہ سے طلاق طلب کرے تو ایک بڑے کبیرہ گناہ کی مرتکب ہو گی۔ابوداود،ترمذی،ابن ماجہ وغیرہ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "أَيُّمَا امَرَأَةٍ سَأَلَتْ زَوْجَهَا طَلاقًا فِي غَيْرِ مَا بَأْسٍ،فَحَرَامٌ عَلَيْهَا رَائِحَةُ الجَنَّةِ " ’’جو عورت بغیر کسی خاص سبب کے اپنے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کرے تو اس کے لیے جنت کی خوشبو حرام ہے۔‘‘[1] اگر کوئی اپنے والد یا والدہ کے کہنے سے طلاق کا مطالبہ کرے تو یہ بھی کبیرہ گناہ کی مرتکب بنتی ہے،اور شوہر کو چاہیے کہ ایسی عورت کو طلاق نہ دے بلکہ تادیب کرے۔اسے حق حاصل ہے کہ اسے اپنے ماں باپ کے گھر جانے سے روک دے۔شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کچھ اسی طرح فرمایا ہے،اور ان کا استدلال اسی حدیث سے ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "لَيْسَ مِنَّا مَنْ خَبَّبَ امْرَأَةً عَلَى زَوْجِهَا " "جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے،وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"[2] اور رہا سوال کا دوسرا حصہ کہ کیا یہ طلاق ہو گئی ہے یا نہیں؟ ہاں یہ طلاق ہو گئی ہے۔آپ کو چاہیے تھا کہ بیوی کے والد نے جو کہا تھا آپ اس سے انکار کر دیتے،بلکہ واجب تھا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس محفوظ رکھتے اور اس پر اصرار کرتے کیونکہ اس طرح اس کا نقصان ہوا ہے۔بہرحال اب جبکہ آپ اپنی مرضی سے یا اس کی دھمکیوں میں آ کر یہ کر چکے ہیں تو طلاق ہو چکی ہے۔اگر آپ کا اس سے ملاپ ہو چکا ہو تو اس کی عدت ختم ہونے سے پہلے پہلے آپ اس کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔اور اگر آپ کا ملاپ نہیں ہوا تو وہ آپ سے جدا ہو چکی
Flag Counter