Maktaba Wahhabi

565 - 868
جواب:یہ اللہ کی شریعت ہے۔اس میں ہم سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ (ہم نے سن لیا اور مان لیا،اے اللہ ہم تیری بخشش کا سوال کرتے ہیں،اورتیری طرف ہی لوٹ کر جانا ہے۔) کے علاوہ کچھ نہیں کہہ سکتے۔(محمد بن عبدالمقصود) سوال:جب شوہر کے ساتھ گزارہ کرنا مشکل بلکہ محال ہو جائے تو طلاق کا مطالبہ کرنا کیساہے؟ میرا شوہر انتہائی جاہل ہے،میرے حقوق بالکل نہیں جانتا۔وہ پہلے بھی مجھے اور میرے ماں باپ کولعن طعن کرتا رہتا تھا،مجھے یہودیہ،نصرانیہ،رافضیہ وغیرہ کہا کرتا تھا،مگر میں اپنے بچوں کی وجہ سے اس کے ان قبیح اخلاق پر صابر رہی اور اب مجھے جوڑوں کا درد شروع ہو گیا ہے،میں بہت عاجز آ گئی ہوں اور صبر بھی نہیں رہا ہے۔میں اسے انتہائی ناپسند کرتی ہوں کہ اس کے ساتھ بات تک نہیں کر سکتی ہوں۔میں نے اس سے طلاق کا مطالبہ کیا تواس نے انکار کر دیا۔میں تقریبا چھ سال سے اس کے گھر میں اپنے بچوں کے ساتھ ہوں اور میری حالت مطلقہ یا اجنبیہ کی سی ہے،اور وہ طلاق دینے سے انکاری ہے۔براہ مہربانی میرے سوال کا جواب مرحمت فرمائیں۔اللہ کریم آپ کی حفاظت فرمائے۔ جواب:اگر شوہر کی حالت فی الواقع ایسے ہی ہے جیسے کہ آپ نے بیان کی ہے تو طلاق طلب کر لینے میں کوئی حرج نہیں،بلکہ اگر اس مقصد کے لیے کوئی عوض اور بدلہ دینا پڑے تو بھی کوئی حرج نہیں،کیونکہ وہ بد معاملہ اور بد کلامی کے ساتھ آپ پر ظلم کرتا ہے۔اگر آپ کے لیے ممکن ہو کہ صبر کر سکو اور کوئی نصیحت کی بات کہہ سکو اور اس کے لیے ہدایت کی دعا بھی کرو تو آپ کے لیے اس میں اجر اور اچھا انجام ہے،کیونکہ آپ اپنی ذات اور بچوں کے اخراجات کے سلسلے میں اس کی یقیناً ضرورت ہو گی۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ اسے ہدایت اور استقامت دے،اور یہ سب اس صورت میں ہے کہ اگر وہ نماز پڑھتا اور دین کو گالی نہ دیتا ہو،ورنہ تو وہ کافر ہے،آپ کے لیے اس کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے اور نہ ہی تم اسے اپنے نفس پر کوئی موقع دو۔کیونکہ دین اسلام کو گالی دینا،اس کا مذاق اڑانا،کفر و ضلالت اور ارتداد ہے،اور اس پر اہل اسلام کا اجماع ہے۔اللہ عزوجل کا فرمان ہے: قُلْ أَبِاللّٰهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ﴿٦٥﴾لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ (التوبۃ:9؍65۔66) "منافقین سے کہہ دیجیے:کیا بھلا تم اللہ تعالیٰ،اس کی آیات اور اس کے رسول سے ٹھٹھا کرتے ہو؟ کسی عذر معذرت کی ضرورت نہیں،تم ایمان لانے کے بعد کافر ہو چکے ہو۔" اور ترک صلاۃ کفر اکبر ہے،خواہ وہ اس کے وجوب کا انکاری نہ بھی ہو اور محض تارک نماز ہو تو بھی یہ کفر اکبر ہے۔" علمائے کرام کا صحیح تر قول یہی ہے۔صحیح مسلم میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ
Flag Counter