Maktaba Wahhabi

591 - 868
سے ائمہ کا یہی قول ہے۔امام ابوحنیفہ اور مالک رحمہما اللہ کے علاوہ امام شافعی رحمہ اللہ کا قول جدید بھی یہی ہے۔امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی کے مطابق آئی ہے۔حضرت عمر،عثمان،علی اور ابن مسعود رضی اللہ عنہم سے بھی یہی منقول ہے۔مگر امام احمد رحمہ اللہ اور دیگر ائمہ حدیث مثلا ابن منذر،ابن خزیمہ،بیہقی نے اس نقل کو ضعیف قرار دیا ہے،سوائے قول ابن عباس کے۔ان کے نزدیک یہ فسخ ہے اور طلاق نہیں۔ امام شافعی وغیرہ کہتے ہیں،ہمیں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے والوں کا حال معلوم نہیں۔کیا ان کا قول وہی ہے جو صحابہ سے منقول ہے (یا کوئی اور)؟ وہ اعتراف کرتے ہیں کہ ہمیں اس کی صحت معلوم نہیں ہے۔اور مجھے بھی اہل علم میں سے کسی کے متعلق صحیح طور پر علم نہیں کہ اس نے صحابہ سے منقول اس قول کو صحیح قرار دیا ہو کہ یہ طلاق بائن ہے اور طلاق ثلاثہ میں سے شمار ہے۔بلکہ سب سے بہتر اور صحیح سند سے جو ثابت ہے وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا قول ہے کہ انہوں نے خلع والی عورت سے کہا تھا کہ وہ ایک حیض سے استبراء کرے اور یہ کہ اس پر عدت نہیں ہے۔[1] اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک خلع سے فرقت بائنہ ہو جاتی ہے اور یہ طلاق نہیں ہے۔کیونکہ طلاق سے،جو بعد از دخول ہو،تین حیض عدت لازم آتی ہے جیسے کہ قرآن کریم کی نص اور مسلمانوں کا اجماع ہے،بخلاف خلع کے،اور سنت اور آثار صحابہ سے یہی ثابت ہے کہ خلع والی عورت کی مدت ایک حیض سے استبراء ہے۔امام اسحاق اور ابن منذر وغیرہ کا یہی مذہب ہے اور امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ایک روایت اسی طرح کی ہے۔ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک عورت کو اس کے شوہر کی طرف لوٹا دیا تھا جسے دو طلاقیں دی گئی تھیں اور ایک بار خلع ہوا تھا جبکہ اس نے کسی اور مرد سے نکاح نہیں کیا تھا۔[2] اور ابراہیم بن سعد بن ابی وقاص جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی طرف سے یمن کے والی تھے تو انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ مسئلہ دریافت کیا،اور بتایا کہ اہل یمن میں بالعموم طلاق بصورت فدیہ کے ہوتی ہے،تو ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جواب دیا فدیہ (عوض) طلاق نہیں ہوتی،لیکن لوگوں نے اس کا نام غلط طور پر طلاق رکھا ہوا ہے۔[3] (امام ابن تیمیہ) سوال:کیا خلع سے بینونہ کبریٰ ثابت ہوتی ہے یا صغریٰ (یعنی کلی جدائی ہوتی ہے کہ اس میں زوجین دوبارہ نہیں مل سکتے یا مل سکتے ہیں)؟ جواب:علماء کا اتفاق ہے کہ اس میں بینونہ کبریٰ نہیں ہوتی،بلکہ بینونہ صغریٰ ہوتی ہے (یعنی اگر دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں) اور اختلاف اس میں ہے کہ خلع والی عورت کی عدت کیا ہے؟ کیا ایک حیض جیسے کہ امام احمد رحمہ اللہ کا مذہب ہے،اور یہی صحیح ہے اور دلائل اسی کی تائید کرتے ہیں،یا اس کی عدت بھی تین حیض ہے جیسے
Flag Counter