Maktaba Wahhabi

720 - 868
کا موقع دے۔اور ویسے بھی شوہرکو چاہیے کہ اپنی بیوی کے لیے ناصح اور خیرخواہ بنے،اسے اچھی باتوں کی تلقین کرے اور برائی سے روکے۔اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کو اپنے والدین کی نافرمانی یا دیگر تعلق داروں سے قطع تعلقی وغیرہ کا کہتا ہے تو ایسا شوہر کوئی دیندار اور صالح نہیں ہے۔مگر بیوی کے لیے لازم ہے کہ اس معاملہ میں شک و شبہ والی کیفیت سے بالا رہے۔اس کام میں کسی فتنہ اور گناہ کی بات نہیں ہونی چاہیے ۔مثلا اگر کوئی عورت اپنے بھائی سے صلہ رحمی کا معاملہ کرتی ہے مگر بھائی ہے کہ ٹیلی ویژن کے آگے بیٹھا رہتا ہے اور اللہ کی ناراضی کے کام کرتا ہے تو ایسا آدمی اگر محرمات پر مصر ہو تو اس صورت میں اس سے صلہ رحمی جائز نہیں ہے۔اس کے ساتھ حسن سلوک یہ ہے کہ اولا اللہ سے دعا کریں کہ اللہ اسے ہدایت دے،پھر مالی تعاون کی ضرورت ہو تو مالی تعاون کریں وغیرہ وغیرہ۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک بار نبی علیہ السلام نے بلند آواز سے فرمایا،آپ نے اپنی آواز کو پست نہیں کیا تھا: "ألا إن آل ابي طالب ليسوا بأوليائى إنما وليى اللّٰه و صالح المومنين ولكن لهم على رحم" "خبردار!آل ابی طالب میرے ولی اور دوست نہیں ہیں۔میرا ولی اوردوست تو اللہ ہے،اور صالح مومنین،تاہم ان لوگوں کا میرے ساتھ ایک رشتہ ضرور ہے۔"[1] اور آپ علیہ السلام نے حضرت عباس،سیدہ صفیہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہم کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:"عمل کر لو،میں اللہ کے ہاں تمہاری کوئی کفایت نہیں کر سکوں گا،محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) سے جس قدر چاہتے ہو مال لے لو۔"[2] اس حدیث کے ضمن میں کہ "وہ میرے ولی اور دوست نہیں ہیں،لیکن میرا ان کے ساتھ ایک رشتہ ہے" امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "ایسا رشتہ جس میں کوئی خرابی اور فساد ہو اسے کاٹ دینا چاہیے ۔" اگرچہ اس میں کسی قدر شدت محسوس ہوتی ہے۔
Flag Counter