Maktaba Wahhabi

724 - 868
جنابت پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے۔لہذا طالبہ کا ایام امتحانات میں زبانی پڑھنا بالکل درست ہے۔اور اگر مجبوری ہو تو ہاتھوں پر دستانے وغیرہ چڑھا کر وہ قرآن مجید پکڑ بھی سکتی ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:ہم گرلز کالج کی طالبات ہیں۔نصاب کے مطابق ہم نے قرآن کریم کے دو پارے بھی حفظ کرنے ہوتے ہیں۔تو کبھی ایسا بھی ہوتا ہے امتحانات اور ہمارے ماہانہ ایام ایک وقت میں آ جاتے ہیں۔کیا اس صورت میں قرآن کریم لکھنا اور یاد کرنا جائز ہے؟ جواب:علماء کے صحیح تر قول کے مطابق حیض اور نفاس والی عورت کو قرآن کریم پڑھنا جائز ہے،مگر اسے چھوا نہ جائے۔کیونکہ اس کی مقابل کوئی ایسی دلیل ثابت نہیں ہے جو منع ثابت کرتی ہو۔لہذا اس حالت میں جائز ہے کہ عورت کسی حائل کے ساتھ (یعنی کسی پاک کپڑے وغیرہ کے ساتھ) قرآن مجید کو پکڑ لے۔اور یہی حکم اس ورق کا ہے جس پر بوقت ضرورت قرآن کریم لکھنا ہے۔ البتہ جنبی (مرد ہو یا عورت) غسل کیے بغیر قرآن مجید نہیں پڑھ سکتا۔کیونکہ اس بارے میں صحیح حدیث ثابت ہے،اور حیض اور نفاس والی کو جنبی پر قیاس کرنا درست نہیں ہے۔کیونکہ حیض اور نفاس کی مدت طویل اور جنابت کی مدت انتہائی قلیل ہوتی ہے۔جنبی کے لیے جنابت کے بعد جلد ہی بروقت غسل کر لینا عین ممکن ہوتا ہے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:کیا عورت کے لیے اس کے ایام مخصوصہ میں ہاتھ لگائے بغیر قرآن کریم پڑھنا جائز ہے؟ کیونکہ مدرسہ میں یہ ایک لازمی مضمون ہے،اور ہم عذر سے بھی ہوتی ہیں؟ جواب:حائضہ عورت کے لیے قرآن مجید کو پکڑنا اور چھونا جائز نہیں ہے،کیونکہ اسے مطہر اور پاکیزہ لوگوں کے علاوہ دوسرے ہاتھ نہیں لگا سکتے ہیں لَّا يَمَسُّهُ إِلَّا الْمُطَهَّرُونَ اور اسے یہ بھی جائز نہیں کہ اسے زبانی پڑھے۔کیونکہ قرآن کریم ایک جلیل القدر عظیم الشان کتاب ہے۔اور حدیث میں ہے: "لا أحل القرآن الحائض ولا جنب " "میں حائضہ اور جنابت والے کے لیے قرآن کریم کو حلال نہیں کرتا۔" [1] تاہم بعض علماء نے امتحانات وغیرہ کے مواقع پر ضرورت کے تحت لازمی حد تک (چھونے اور پڑھنے) کی اجازت دی ہے۔(صالح بن فوزان) ایک دوسرے موقع پر دیا گیا جواب: جواب:نفاس والی عورت کو قرآن مجید پکڑنا اور اس کی قراءت کرنا حرام ہے،جب تک کہ اسے بھول جانے کا اندیشہ نہ ہو،جیسے کہ حائض ہوتی ہے۔(صالح بن فوزان)
Flag Counter