Maktaba Wahhabi

811 - 868
ساتھ کوئی محرم بھی ہو تو یہ بہت بہتر ہے۔ اگر کوئی ایسا فرد موجود ہو جو یہ ضروریات لا سکتا ہے،تب اسے جانے کی ضرورت نہیں ہے،کیونکہ بازار جانے میں فتنہ اور کئی اندیشے ہیں۔بالخصوص اس دور میں جب فتنے بہت زیادہ ہو گئے ہیں،حیا اٹھ گئی ہے،سوائے اس کے جس پر اللہ رحم فرمائے۔لہذا عورتوں کا حتی الامکان اپنے گھروں میں رہنا ہی واجب ہے،جیسے کہ اللہ عزوجل نے فرمایا ہے: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ (الاحزاب:33؍33) "اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور گزشتہ جاہلیت کے سے انداز میں اپنی زینت کا اظہار مت کرو۔" (صالح بن فوزان) سوال:کیا عورت کے لیے جائز ہے کہ اپنی اور اپنی بیٹیوں کی ضروریات خریدنے کے لیے شوہر کو بتائے بغیر بازار چلی جائے؟ جواب:عورت پر واجب ہے کہ جب گھر سے باہر بازار جانا ہو یا کہیں اور،تو ہمیشہ اپنے شوہر کو بتا کر اور اس سے اجازت لے کر جائے۔اور جب ممکن ہو کہ اس کی ضروریات کی خریداری شوہر یا اس کا کوئی محرم کر سکتا ہے،تو یہ اس کے لیے بہت زیادہ بہتر ہے۔اور جب باہر جانا ہو تو واجب ہے کہ شرعی ممنوعات کے ارتکاب سے احتراز کیا جائے یعنی اس کا چہرہ اور جسم کامل طور پر پردے میں ہو۔اللہ جل و علاء کا فرمان ہے: وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَىٰ (الاحزاب:33؍33) "اور اپنے گھروں میں ٹکی رہو اور سابقہ جاہلیت کے انداز میں اپنی زینت کا اظہار نہ کرو۔" اور فرمایا: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَاءِ الْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَابِيبِهِنَّ (الاحزاب:33؍59) "اے نبی!اپنی بیویوں،بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دیجیے کہ اپنے اوپر اپنی اوڑھنیوں کی بکل مارے رہا کریں۔" اور عربی زبان میں "جلباب" اس بڑی چادر کو کہتے ہیں جو عورت اپنے کپڑوں کے اوپر لیتی ہے جس سے اس کا سر اور بدن مزید ڈھانپ جاتا ہے۔اور ارشاد الہٰی ہے: وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ۚ ذَٰلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ ۚ (الاحزاب:33؍53) "اور جب تم ان سے کوئی چیز طلب کرنا چاہو تو پردے کے پیچھے سے طلب کیا کرو،یہ چیز تمہارے
Flag Counter