Maktaba Wahhabi

860 - 868
روزمرہ اخراجات کے لیے قرضہ لینا چاہ رہا ہو تو ماں کے لیے جائز ہو گا کہ اسے اپنا زیور دے کر اسے رہن رکھ دے اور قرضہ لے لے۔ پھر جو شخص رہن لے،حسب حالات (یعنی عدم ادائیگی کی صورت میں) رہن شدہ چیز کو بیچ دینے کا مالک بھی ہے۔ائمہ حنابلہ نے لکھا ہے کہ آدمی کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنا مال اس آدمی کو دے سکتا ہے جو اسے آگے رہن رکھنا چاہتا ہے،اور اگر مدت مقررہ میں ادائیگی نہ کر سکے تو رہن رکھا گیا مال بیچ دیا جائے۔تاہم اس صورت میں قرض لینے والے کے ذمے ہو گا کہ اصل مالک کو اس رہن رکھے گئے مال کی قیمت ادا کرے۔ الغرض جب اس عورت نے،خواہ اس کے لیے جائز ہو یا نہ ہو،اپنے بیٹے کو اجازت دے دی کہ اس کا زیور رہن رکھ سکتا ہے،پھر حالات کے تحت وہ بیچ دیا گیا اور قرض خواہ نے اپنا قرض پورا کر لیا تو بیٹے کے ذمے کچھ نہیں ہو گا۔[1] (عبدالرحمٰن السعدی) سوال:کیا میرے لیے جائز ہے کہ اپنے بیٹے کو وہ کچھ دوں جو دوسرے کو نہ دوں،اس لیے کہ وہ غنی ہے؟ جواب:آپ کو یہ روا نہیں کہ اپنی اولاد میں سے،خواہ وہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں،کسی ایک کو بالخصوص دیں اور دوسروں کو نہ دیں۔واجب ہے کہ حسب وراثت ان میں عدل سے کام لیں۔یا کسی کو کچھ نہ دیں،کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولادوں میں عدل کیا کرو۔" [2] لیکن اگر وہ بالغ اور سمجھ دار ہوں اور وہ آپ کی اس تخصیص پر راضی ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ایسے ہی اگر اولاد میں سے کوئی لاچار ہو،کما نہ سکتا ہو،اسے بیماری وغیرہ کا کوئی عارضہ ہو یا کوئی اور رکاوٹ ہو کہ آمدنی بہت کم ہو اور باپ یا بھائی نہ ہوں کہ اس پر خرچ کریں اور نہ حکومت ہی کی طرف سے کوئی وظیفہ ملتا ہو تو آپ (ماں) پر لازم ہے کہ اس کی ضرورت کے مطابق اس پر خرچ کریں حتیٰ کہ اللہ تعالیٰ اسے غنی کر دے۔(عبدالعزیز بن باز) سوال:کیا ماں کے لیے جائز ہے کہ اپنے بچوں میں سے کسی ایک کے ساتھ زیادہ الفت و پیار کا اظہار کرے؟ اور ایسے ہی پوتوں کا معاملہ ہے،جبکہ سب ہی بیٹے پوتے پوتیاں اس کے ساتھ حسن سلوک میں برابر ہوں؟ جواب:ماں باپ پر لازم ہے کہ اپنی اولاد میں عدل سے کام لیں اور عطیہ و ہدیہ وغیرہ دینے میں کسی کو دوسرے پر افضیلت نہ دیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"اللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور اپنی اولادوں میں عدل کیا کرو۔"[3]
Flag Counter