Maktaba Wahhabi

95 - 868
اور عمل صالح وہی ہوتا ہے جو شریعت کے مطابق اور اللہ کے لیے خالص ہو۔اگر کوئی کام شریعت کے مطابق نہ ہو تو وہ صالح نہیں رہتا بلکہ کرنے والے کے منہ پر دے مارا جاتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:"جس نے کوئی ایسا عمل کیا جو ہمارے حکم کے مطابق نہ ہو تو وہ مردود ہے۔"[1]اور فرمایا:"اعمال کی بنیاد نیتوں پر ہے،اور ہر آدمی کے لیے وہی ہے جو اس نے نیت کی۔"[2] علماء فرماتے ہیں کہ یہ دونوں احادیث اعمال کے پرکھنے کے لیے میزان اور کسوٹی ہیں۔نیت والی حدیث باطنی اعمال کی کسوٹی ہے اور دوسری ظاہری اعمال کی۔(محمد بن صالح عثیمین) سوال:کیا یہ جائز ہے کہ انسان کسی عدد اور گنتی کو یا کسی دن یا مہینے وغیرہ کو سعد یا نحس سمجھے۔۔۔؟ جواب:یہ چیز کسی طرح جائز نہیں ہے بلکہ مشرکین اور اہل جاہلیت کے لوگوں کی عادات میں سے ہے جن کی تردید و ابطال کے لیے دین اسلام آیا ہے۔شریعت میں ان اعمال کے حرام ہونے کی صراحت آئی ہے،بلکہ یہ شرک ہے اور ان چیزوں کا کسی نفع کے حاصل ہونے یا نقصان سے بچاؤ میں قطعا کوئی عمل دخل نہیں ہے۔کیونکہ اللہ عزوجل کے علاوہ کہیں کوئی عطا کرنے والا،روک لینے والا،نفع دینے والا یا نقصان پہنچانے والا نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: وَإِن يَمْسَسْكَ اللّٰهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ (یونس 10؍107) "اگر اللہ تمہیں کوئی نقصان پہنچائے تو اسے دور کرنے والا بھی اس کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے۔" حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"اگر ساری امت والے اس بات پر اتفاق کر لیں کہ تجھے کچھ فائدہ دینا ہے،تو وہ سب مل کر تجھے کوئی فائدہ نہ دے سکیں گے مگر اتنا ہی جو اللہ نے تیرے لیے لکھ دیا ہے۔اور اگر وہ سب اس بات پر اتفاق کر لیں کہ تیرا کچھ نقصان کرنا ہے تو وہ تیرا کچھ نہ بگاڑ سکیں گے مگر اتنا ہی جو اللہ نے تیرے خلاف لکھ دیا ہے،قلمیں اٹھا لی گئی ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔"[3] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"(بیماری کا) کوئی متعدی ہونا نہیں،کوئی بدفالی
Flag Counter