Maktaba Wahhabi

157 - 325
تب حضرت عکاشہ بن محصن اٹھے اور عرض کیا،’’آپ میرے لیے دعا فرمائیے کہ میں انہیں میں سے ہوں جاؤں۔‘‘ آپ نے فرمایا،’’آپ انہیں میں سے ہوں گے‘‘ پھر دوسرا شخص اٹھا،اس نے بھی کہا،’’آپ میرے لیے دعا فرمائیے کہ میں بھی انہیں میں سے ہو جاؤں۔‘‘ آپ نے فرمایا،’’عکاشہ تم پر سبقت لے گئے۔‘‘ (اس حدیث کو بخاری،مسلم،ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔) اس حدیث میں حضرت عکاشہ بن محصن رضی اللہ عنہ کے قول پر غور کیجئے:اُدْعُ اللّٰهَ اَنْ يَجْعَلَنِىْ مِنْهُم یعنی ’’آپ اللہ سے دعا فرمائیں کہ وہ مجھے ان ستر ہزارخوش نصیب لوگوں میں رکھے۔‘‘ آپ نے جواب دیا،اَنْتَ مِنْهُمْ،آپ انہیں میں سے ہوں گے۔‘‘ اور بخاری شریف کی دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا،اَللّٰهُمَّ اجْعَلْهُ مِنْهُمْ ’’اے اللہ،عکاشہ کو انہیں لوگوں میں سے کردے۔‘‘ یعنی حضرت عکاشہ رضی اللہ عنہ نے آپ سے دعا کی درخواست کی اور آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔لہٰذا ثابت ہوا کہ مومن اپنے لیے دوسرے مومن کی دعا کو بارگاہ الہٰی میں وسیلہ بنا سکتا ہے اور یہ امر مشروع ہے،کیونکہ صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عکاشہ نےآپ سے دعا کا وسیلہ لیا۔ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ ایک عام رائج بات تھی کہ لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کرتے تھے اور آپ ان کے لیے اللہ سے دعا فرماتے تھے صحابہ کرام یہ جانتے تھے کہ آپ کی دعا رد نہیں کی جائے گی،کیونکہ آپ مستجاب الدعوۃ تھے۔چنانچہ ایک نابینا نے آپ سے دعا کرائی کہ اس کی آنکھ روشن ہو جائے،اللہ نے
Flag Counter