Maktaba Wahhabi

166 - 325
حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس انتخاب کو تمام صحابہ رضی اللہ عنہم نے بالاتفاق تسلیم کیا،کسی نے بھی مخالفت نہیں کی۔یہ ایک طرح سے صحابہ رضی اللہ عنہم کااجماع تھا،او راجماع دلیل و حجت میں شریعت کا چوتھا جزء ہے۔اس طرح حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس عمل سے ثابت ہوا کہ مومن کی دعا کاوسیلہ مشروع ہے۔ اصل بحث سے ذرا ہٹتے ہوئے یہاں ہم اس دعا کو بھی نقل کر دینا چاہتے ہیں جسے حضرت عباس رضی اللہ عنہ نےاس موقع پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کے مطابق مانگی تھی۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے ’’فتح الباری ‘‘ میں زبیر بن بکار کی روایت سے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا نقل کی ہے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا ا: اَللّٰهُمَّ إِنَّهُ لَمْ يَنْزِلْ بَلَاءٌ مِنَ السَّمَاءِ إِلَّا بِذَنْبٍ،وَلَا يُكْشَفُ إِلَّا بِتَوْبَةٍ،وَقَدْ تَوَجَّهَ بِي الْقَوْمُ إِلَيْكَ لِمَكَانِي مِنْ نَبِيِّكَ صَلَّى اللّٰہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ،وَهَذِهِ أَيْدِينَا بِالذُّنُوبِ وَنَوَاصِينَا بِالتَّوْبَةِ،فَاسْقِنَا الْغَيْثَ،فَأَرَخَتْ کَالْحِبَالِ ’’اے اللہ،بلاء کا نزول صرف گناہ کے سبب سے ہوتا ہے اور وہ صرف توبہ ہی کے ذریعہ دور بھی کی جاتی ہے،اور قوم نے مجھے تیر ی طرف متوجہ کیا،کیونکہ تیرے نبی سے میرا رشتہ ہے۔ہمارے یہ ہاتھ جو تیری طرف اٹھے ہیں گناہوں سے بھرپور ہیں،اور ہماری پیشانیاں تیری بارگاہ میں توبہ سے جھکی ہوئی ہیں۔تو ہمیں بارش سے سیراب فرما۔اس کے بعد بارش پہاڑوں کی طرح موسلا دھار آئی۔‘‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے گناہوں کے اعتراف اور ان سے توبہ کووسیلہ بنایا تو بلاشبہ عظیم صالح عمل ہے۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ دعا مانگ رہے تھے او رتمام مسلمان
Flag Counter